Maktaba Wahhabi

113 - 120
ہوگا،موٹر روک لی،لیکن اس کے باوجود بھی بڑی تشویش ہوئی،کیونکہ گھوڑا بلا سواربڑی تیزی سے دوڑاآرہا تھا،راوی کا کہنا ہے کہ اس شخص نے اپنے دل میں سوچاکہ اگر پیرومرشد ہوتے دعاکرتے،ابھی اتنا سوچا تھا کہ حضرت شیخ گھوڑے کی لگام پکڑ کر کہیں غائب ہوگئے‘‘۔[1] ۴- مولانا حسین احمد مدنی کے ایک مرید اورخلیفہ قاری فخرالحسن صاحب گیاوی نے اپنی کتاب ’’درس حیات‘‘ میں اپنے والد مولانا خیرالدین صاحب کے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ ایک بار اپنے پیرومرشد سے ملاقات کے لیے وہ سوات جارہے تھے جو سندھ کے اطراف میں واقع ہے،درمیان میں پہاڑوں اورصحراؤں کا ایک طویل سلسلہ طے کرنا پڑتا تھا،چلتے چلتے جب وہ ایک پہاڑ کی گھاٹی میں پہونچے تووہاں کا راستہ اتنا تنگ اوردشوار گذارتھا کہ گدھے کی سواری کے بغیر اسے عبورکرنا ناممکن تھا،مولانا کا کہنا ہے کہ میں گدھے پر سوار تھوڑا ہی آگے بڑھا ہوں گا کہ ایک درہ میں سے ڈاکووں کا ایک گروہ نکلا اوراس نے مجھ کوبہت تنگ کیا،میرے پاس جوکچھ تھا سب رکھوالیا اوراس کے بعد جان کی باری تھی،رحم کا کوئی شائبہ ان کے اندر نہ تھا۔ میں نے پریشانی کے عالم میں سرجھکایا اورعمل برزخ ’’تصورشیخ ‘‘ کا عمل کیا،اب کیا دیکھتاہوں کہ وہی ظالم ڈاکو سراپا رحم وکرم بنے ہوئے تھر تھر کانپ رہے ہیں،کوئی قدم چومتا ہے کوئی ہاتھ چومتا ہے … انہی لوگوں میں ڈاکوؤں کا سردار بھی تھا وہ مجھے اپنے گھر لے گیا اورمیری بڑی خاطر مدارات کی،وہ لوگ بار بار مجھ سے معافی مانگتے تھے اوراقرار لیتے تھے کہ میں نے انہیں معاف کردیا۔میں نے حیرانی کے عالم میں ان سے دریافت کیا کہ پہلے تو تم لوگوں نے میرے ساتھ وہ معاملہ کیا اوراب اچانک کیا بات ہوگئی کہ تم میرے حال پر اس قدر مہربان ہوگئے،ان لوگوں نے جواب دیا کہ: ’’حضرت ہم نے آپ کو پہچانا نہ تھا،جب آپ آنکھ بند کرکے سرجھکائے بیٹھے
Flag Counter