Maktaba Wahhabi

102 - 260
رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَقْرَاُہَا فَلَمَّا سَمِعَ بِہَا عُتْبَۃُ اَنَصْتَ لَہَا وَالْقَی بِیَدَیْہِ خَلْفَہٗ اَوْ خَلْفَ ظَہْرِہٖ مُعْتَمِدًا عَلَیْہَا لِیَسْمَعَ مِنْہُ ، حَتّٰی اِنْتَہَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم اِلَی السَّجَدَۃِ فَسَجَدَہَا ثُمَّ قَالَ : ((سَمِعْتَ یَا اَبَا الْوَلِیْدِ ؟ )) قَالَ : سَمِعْتُ قَالَ (( فَاَنْتَ وَذَاکَ )) ثُمَّ قَامَ عُتْبَۃُ اِلَی اَصْحَابِہٖ فَقَالَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ نَّحْلِفُ بِاللّٰہِ لَقَدْ جَائَ کُمْ اَبُوْ الْوَلِیْدَ بِغَیْرِ الْوَجْہِ الَّذِیْ ذَہَبَ بِہٖ فَلَمَّا جَلَسُوْا اِلَیْہِ قَالُوْا : مَا وَرَائَ کَ یَا اَبَا الْوَلِیْدِ ؟ قَالَ : وَرَائِیْ اَنِّیْ وَاللّٰہِ قَدْ سَمِعْتُ قَوْلاً مَا سَمِعْتُ مِثْلَہٗ قَطُّ ، وَاللّٰه مَا ہُوَ بِالشِّعْرِ وَلاَ الْکَہَانَۃِ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ ! اَطِیْعُوْنِیْ وَاجَعَلُوْہَا بِیْ خَلَوْا بَیْنَ ہٰذَا الرَّجُلِ وَبَیْنَ مَا ہُوْ فِیْہِ وَاعْتَزَلُوْہُ فَوَاللّٰہِ ! لَیَکُوْنَنَّ لِقَوْلِہِ الَّذِیْ سَمِعْتُ نَبَا ، فَاِنْ تُصِبْہُ الْعَرْبُ فَقَدْ کَفَیْتُمُوْہُ بِغَیْرِکُمْ وَاِنْ یَظْہَرََ عَلَی الْعَرَبِ فَمُلْکُہٗ مُلْکُکُمْ وَعِزُّہٗ عِزُّکُمْ وَکُنْتُمْ اَسْعَدَ النَّاسِ بِہٖ قَالُوْا سَحَرَکَ وَاللّٰہِ یَا اَبَا الْوَلِیْدِ بِلِسَانِہٖ قَالَ : ہٰذَا رَایِیْ لَکُمْ فَاصْنَعُوْا مَا بَدَاَ لَکُمْ۔ ذَکَرَہٗ ابْنِ کَثِیْرٌ[1] حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں عتبہ بن ربیعہ اپنی قوم کا حلیم الطبع سردار تھا ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں اکیلے تشریف فرماتھے اور عتبہ قریش کی مجالس میں موجودتھا کہنے لگا’’حضرات ! کیوں نہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر میں بات چیت کروں اوران کے سامنے بعض باتیں رکھوں ہوسکتاہے وہ کوئی بات قبول کرلیں جوکچھ وہ قبول کرلیں گے اس پر ان سے سودے بازی کرکے ہم انہیں اپنے ہاں (دعوت سے) روک دیں گے یہ اس زمانے کی بات ہے جب حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ایمان لاچکے تھے اور مشرکین کو اندازہ ہو چکا تھاکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی دن بدن بڑھتے جارہے ہیں،حاضرین مجلس نے کہا ’’ابو ولید! کیوں نہیں! ضرورجاکر بات کروچنانچہ عتبہ اٹھا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گیااور کہنے لگا’’اے میرے بھتیجے! ہمارے درمیان تمہیں جو مقام اور مرتبہ حاصل ہے اور جو بلند پایہ نسب ہے وہ تمہیں معلوم ہی ہے اب تم اپنی قوم کے پاس بہت نازک معاملہ لے آئے ہوجس نے قوم کا اتحاد پارہ پارہ کردیاہے قوم کے بزرگوں کوتم نے احمق قرار دے دیاہے ان کے معبودوں اور ان کے دین میں عیب نکالنے شروع کردیئے ہیں ان کے گزرے ہوئے آباؤ اجدادکو کافر بناناشروع کردیاہے میری بات سنو!میں تمہارے سامنے کچھ باتیں رکھتاہوں ان پر غوروفکرکرو، ممکن ہے ان میں سے کوئی بات تمہیں پسند آجائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ابو ولید ! بات کرو ،میں سنتاہوں عتبہ نے کہا ’’بھتیجے!یہ دعوت جسے تم لے کر آئے ہو اگر اس سے تمہارا
Flag Counter