Maktaba Wahhabi

156 - 241
انسان چاہتا ہے کہ وہ حیاتِ مستعار کے زیادہ سے زیادہ پل جیے۔ ابولؤلؤ جیسا قاتل بھی جسے یقین ہوتا ہے کہ وہ گرفتار ہو کر کیفرِ کردار کو پہنچے گا، زندہ رہنا چاہتا ہے۔ وہ امید کرتا ہے کہ اسے راہِ فرار مل جائے گی۔ وہ جیل سے بھاگنے کی کوشش کرے گا۔ زندگی کے زیادہ سے زیادہ لمحے پانے کے لیے کوئی اور وسیلہ اختیار کرے گا۔ کچھ بھی نہ ہو تو کم از کم اپنے ہاتھوں وہ موت کے گھاٹ نہیں اترتا۔ لیکن اگر وہ قتل کرنے کے بعد خود کو مار ڈالتا ہے تو ضرور ہے کہ اس نے کسی کے ایما پر ایسا کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہود نے بہت سے عیسائی زعما کو تہ تیغ کیا۔ ہزاروں کو قید خانوں میں ڈال کر اذیت ناک موت سے دوچار کیا۔ اِس کے باوجود انھیں اس وقت تک چین نہ آیا جب تک عیسائیت نے توحید کا کرتا اتار کر عقیدۂ تثلیث کا مشرکانہ لبادہ نہیں اوڑھ لیا۔ اسلام کے متعلق بھی ان کی یہی منصوبہ بندی تھی۔ ان کے گھناؤنے مقاصد کی تکمیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ وہ اِس رکاوٹ کو ہر قیمت پر ہٹا دینا چاہتے تھے، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فوراً گھر لایا گیا۔ نبیذ طلب کی اور نوش فرمائی تو وہ پیٹ کے زخموں میں سے نکل گئی، پھر دودھ منگایا اور پیا تو وہ بھی زخموں کے راستے سے نکل گیا۔ موت کے آثار واضح نظر آئے تو بیٹے عبداللہ سے فرمایا: ’’ذرا آنکنا کہ مجھ پر کتنا قرض ہے۔‘‘ انھوں نے حساب کیا تو قرض کی رقم چھیاسی ہزار درہم ہوئی۔ فرمایا: ’’عبداللہ! آلِ عمر کا روپیہ ادائے قرض کے لیے ناکافی پڑے تو بنو عدی سے روپیہ طلب کرنا۔ بنو عدی کا روپیہ ادائے قرض کے لیے ناکافی پڑے تو قریش سے پوچھنا۔ ان کے علاوہ اور کسی سے سوال مت کرنا۔‘‘ پھر فرمایا: ’’عبداللہ! ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جاؤ۔ ان سے کہنا کہ عمر
Flag Counter