Maktaba Wahhabi

157 - 241
آپ کو سلام عرض کرتا ہے۔ ’’امیرالمومنین رضی اللہ عنہ مت کہنا کہ آج میں امیر نہیں رہا، پھر کہنا کیا آپ عمر کو اپنے دونوں صاحبوں کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت دیتی ہیں؟‘‘ عبداللہ ، ام المومنین کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے۔ وہ بیٹھی رو رہی تھیں۔ عبداللہ نے سلام عرض کیا اور کہا: ’’عمر بن خطاب آپ سے اپنے دونوں صاحبوں کے پہلو میں دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’وہ جگہ تو واللہ میں نے اپنے لیے سنبھال رکھی تھی لیکن آج میں انھیں خود پر ترجیح دوں گی۔‘‘ عبداللہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں واپس آئے تو کسی نے بتایا کہ عبداللہ آگیا ہے۔ فرمایا: ’’مجھے اٹھاؤ۔‘‘ ایک صاحب نے اٹھا کر سہارا دیا تو عبداللہ سے فرمایا: ’’کیا خبر لائے ہو؟‘‘ عبداللہ نے بتایا کہ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔‘‘ فرمایا: ’’مجھے اُس قطعۂ زمین سے بڑھ کر اور کسی شے کی فکر نہیں تھی۔‘‘ عبداللہ سے فرمایا کہ جب میں مرجاؤں تو میرا جنازہ اٹھائے ام المومنین رضی اللہ عنہا کے دروازے پر ٹھہرنا اور پھر پوچھنا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اجازت چاہتا ہے۔ اگر وہ اجازت مرحمت فرمائیں تو مجھے اندر لے جانا۔ اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کر دینا۔‘‘ [1] چنانچہ ان کی امید بر آئی اور وفات کے بعد انھوں نے اپنے دونوں صاحبوں کی ہمسائیگی میں جگہ پائی۔ اسلام کے دوسرے خلیفۂ راشد امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بدھ کے روز 26 یا 27 ذی الحج 23ھ کو وفات پائی۔ ان کی عمر 63 برس کی تھی۔ مدتِ خلافت تھی 10 برس، 6 مہینے اور چند روز۔[2]
Flag Counter