Maktaba Wahhabi

173 - 241
ان کے ہمراہ تھے۔ سفر سے واپسی پر ان دونوں نے ایک نخلستان میں پڑاؤ کیا تاکہ ذرا سستا کر تازہ دم ہوجائیں۔ نخلستان کے درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں انھیں نیند آنے لگی۔ دفعتاً ہاتف غیبی کی آواز آئی: ’’ارے سونے والو! جاگو! مکہ میں محمد ظاہر ہوگئے۔‘‘ وہ دونوں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھے لیکن ایک دوسرے کو ہاتف غیبی کی آواز کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔ ہر ایک کو یہی خیال آیا کہ وہ آواز شاید اسی نے سنی ہے۔ دوسرے کو وہ آواز سنائی نہیں دی۔ان چند لفظوں نے ان کے دل و دماغ میں بسیرا کر لیا۔ باقی سفر انھی کے متعلق سوچتے ہوئے کٹا۔ وہ دونوں بڑی بے چینی سے منتظر رہے کہ کب مکہ پہنچیں گے اور کب ان الفاظ کی حقیقت معلوم کریں گے۔ مکہ کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی وہ حرمِ کعبہ میں پہنچے۔ اہل قریش معمول کی مجالس آراستہ کیے بیٹھے تھے۔ محمد اور ان کی دعوتِ دینی تازہ ترین موضوع بحث تھا۔ اسی موضوع پر چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں۔ عثمان اور طلحہ نے بھی وہ تمام باتیں بڑی توجہ سے سماعت کیں۔ ہاتف غیبی کی آواز وہ سن چکے تھے۔ یوں نئے دین کی حقانیت پر وہ گویا پہلے سے ایمان لاچکے تھے۔ عثمان نے طلحہ کا ہاتھ تھاما اور دونوں بیت محمد کی طرف چل دیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسلام کی مقدس تعلیمات سے آگاہ کیا، قرآنی آیات پڑھ کر سنائیں، اسلام نے انسانوں کو جو حقوق دیے ہیں، ان کے متعلق بتلایا، اللہ تعالیٰ نے اسلام لانے کی بدولت انسانوں کو جو انعام و اکرام دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اس کی خبر دی تو وہ دونوں اسلام لے آئے اور تصدیق کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔[1] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام پر سرداران قریش کو غصہ تو آیا لیکن وہ اُن کا کچھ
Flag Counter