Maktaba Wahhabi

174 - 241
بگاڑ نہیں پائے کیونکہ وہ قریش کی معتبر شاخ بنو امیہ کے قابل فخر فرزند تھے۔ کوئی انھیں ہاتھ بھی لگاتا تو بنو امیہ کی تلواریں طیش میں آجاتیں۔ لیکن خود بنو امیہ کو یہ بات کیونکر ہضم ہوتی کہ ان کے نامی سردار کا بیٹا نئے دین کا لبادہ اوڑھ لے۔ سرداران قریش دارالندوہ میں سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ امر متفقہ طور پر طے پایا کہ تمام قبائل کے سردار اپنے اپنے قبیلے کے ان افراد کی خبر لیں اور انھیں سبق سکھائیں جنھوں نے نئے دین کا لبادہ پہنا ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے بنو امیہ کے سردار حکم ابن ابی عاص پر دباؤ ڈالا گیا۔ اس نے ان کو پکڑا اور رسیوں میں جکڑ کر کہا کہ آباؤ اجداد کا مذہب چھوڑ کر نئے دین کے گن گاتے ہو! واللہ! اس وقت تک یہ رسیاں نہیں کھولوں گا جب تک نئے دین کا لبادہ نہیں اتارو گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی قسم کھا کر کہا: واللہ! یہ دین کبھی نہیں چھوڑوں گا۔[1] حَکم نے دیکھا کہ یہ لڑکا کسی طرح نہیں ٹلتا تو اس نے رسیاں کھول کر انھیں آزاد کردیا۔ حَکم نے تو چھوڑ دیا لیکن دیگر سرداران قریش نے انھیں نہیں چھوڑا۔ وہ انھیں اور اسلام کے دوسرے نام لیواؤں کو برابر ستاتے رہے۔ انھیں طرح طرح کی ایذائیں دیتے رہے۔ ظلم وستم کا نشانہ بناتے رہے۔ ان کے لیے عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔ مکہ میں ان کا جینا دو بھر ہوگیا۔ ایک ایک پل گزارنا قیامت معلوم ہوتا تھا۔ تبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ حبشہ کی طرف ہجرت کر جائیں۔ سر زمین حبشہ جہاں ان دنوں ایک انصاف پسند بادشاہ حکومت کرتا تھا، اس کے ملک میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا تھا۔ وقتی طور پر اہل کفر کی ایذا رسانیوں سے بچنے کا ایک یہی راستہ تھا جو مسلمانوں نے اپنایا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی زو جہ محترمہ حضرت رقیہ رضی اللہ عنہ کے
Flag Counter