سی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہے(اجر) بڑھا دیتا ہے۔ اور اللہ بڑی وسعت والا، خوب جاننے والا ہے۔‘‘ [1] نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپ کی اولین ترجیح یہ تھی کہ مدینہ منورہ میں مسجد تعمیر کی جائے۔ مسلمانوں کو بھی مسجد کی اہمیت کا احساس تھا، چنانچہ زمین خرید کر تعمیر کا آغاز کردیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس تعمیراتی کاموں میں حصہ لیا۔ مہاجرین و انصار نے بھی خوب محنت سے کام کیا۔ مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو مسلمانوں کی کئی ضروریات پوری ہونے لگیں۔ وہ مسجد میں دین کا علم حاصل کرتے۔ اہم معاملات کے متعلق مسجد ہی میں مشاورت کرتے۔ یہیں سے لشکر روانہ ہوتے۔ دعوت وتبلیغ کے لیے جانے والے افراد بھی یہیں سے رخت سفر باندھتے۔ غرضیکہ مسجد ان کی تمام دینی و سماجی سر گرمیوں کا مرکز بن گئی۔ ابتدا میں مسلمانوں کی تعداد چونکہ کم تھی، اس لیے مسجد کا دامن خاصا وسیع معلوم ہوتا تھا۔ لیکن جب لوگوں نے جوق در جوق آکر دین اسلام قبول کیا اور مسلمانوں کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوگیا تو مسجد تنگی داماں کی شکایت کرنے لگی۔ نمازوں کے اوقات میں بعض دفعہ لوگوں کو نماز کے لیے جگہ بھی نہیں ملتی تھی۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس امر کا شدید احساس تھا کہ اب مسجد کی توسیع ہونی چاہیے، چنانچہ آپ نے مسلمانوں سے کہا: ’’ہماری مسجد کو وسیع کون کرے گا؟‘‘[2] حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور پانچ ستونوں کی وسیع جگہ خرید کر خدمت نبوی |