Maktaba Wahhabi

180 - 241
ایک تیر نکالا، ایک صحابی کو دیا۔ وہ تیر لیے ایک تباہ شدہ کنویں میں اترے اور اس میں تیر گاڑ دیا۔ کنویں میں سے بھرپور پانی نکلنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ زن ہو کر ذرا اطمینان لیا تو بدیل بن ورقا خزاعہ کے چند افراد کو ہمراہ لیے حاضر خدمت ہوا۔ انھوں نے آپ سے بات چیت کی اور پوچھا کہ آپ کیوں آئے ہیں۔ آپ نے انھیں بتایا کہ ہم جنگ کرنے نہیں آئے ہم تو بیت اللہ کی زیارت کرنے اور اس کی عزت و حرمت کو خراج تعظیم پیش کرنے آئے ہیں۔ بُدیل بن ورقا اور اس کے ہمراہی واپس گئے۔ انھوں نے قریش سے کہا کہ تم بے صبری سے کام لے رہے ہو۔ محمد لڑائی کرنے نہیں آیا۔ وہ تو بیت اللہ کی زیارت کرنے آیا ہے۔ قریش نے بدیل بن ورقا اور اس کی ساتھیوں کو ڈانٹ پلائی اور کہا کہ اگر وہ لڑائی کرنے نہیں آیا تو بھی وہ مکہ میں زبردستی داخل نہیں ہوپائے گا۔ ورنہ تو عرب کے لوگ ہماری ہنسی اڑائیں گے اور باتیں بنائیں گے۔ ابن ورقا کے بعد قریش کے چند اور سفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے آئے۔ ان میں عروہ بن مسعود ثقفی بھی شامل تھا۔ اس نے واپس آکر قریش سے کہا: ’’قریش کے لوگو! میں نے قیصر و کسریٰ اور نجاشی کی بادشاہت قریب سے دیکھی ہے۔ واللہ! محمد کے اصحاب اس کا جتنا احترام کرتے ہیں میں نے کسی قوم کو اپنے بادشاہ کا اتنا احترام کرتے نہیں دیکھا۔ میں ایسی قوم کا مشاہدہ کرکے آرہا ہوں جو محمد کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گی، اس لیے خوب سوچ سمجھ کر اقدام کرنا۔‘‘ [1] اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مکہ جائیے اور
Flag Counter