Maktaba Wahhabi

197 - 241
حیات مبارکہ کے آخری ایام میں آپ نے یہاں تک فرمایا تھا کہ میں یہود و نصاریٰ کو جزیرہ عرب سے نکال کر رہوں گا۔ میں یہاں مسلمانوں کے سوا کسی اور کو نہیں رہنے دوں گا۔‘‘[1] آپ نے وفات سے پہلے مسلمانوں کو یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ مشرکین کو جزیرۂ عرب سے نکال باہر کرنا۔‘‘[2] خیبر میں رہتے ہوئے بھی یہود کی گھناؤنی سر گرمیوں میں کوئی کمی نہ آئی۔ یثرب میں یہود کے دو بڑے قبیلے بستے تھے، بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ بنو نضیر جلا وطن ہو کر خیبر چلے گئے تھے۔ انھوں نے بنو قریظہ کو بھی عہد شکنی پر آمادہ کیا اور دونوں قبائل نے مل کر مشرکین عرب کو مسلمانان مدینہ کے خلاف بھڑکایا۔ مشرکین عرب مدینہ پر چڑھ آئے۔ یوں غزوۂ خندق پیش آیا۔ غزوۂ خندق میں مشرکینِ عرب شکست فاش سے دو چار ہوئے۔ بعد ازاں مسلمانوں نے بنو قریظہ کو ان کی عہد شکنی کا مزہ چکھایا۔ خیبر میں بھی یہودیوں کا تعاقب کیا، ان کی خوب پٹائی کی اور انھیں جزیہ دینے پر مجبور کردیا۔ حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے دور خلافت میں یہودیوں کی آواز پست رہی اور وہ موقع کی تلاش میں رہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے دوسرے نصف میں بعض ناگزیر معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوئیں (جن کے لانے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ نہیں تھا) تو یہودیوں کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے فضا ساز گار نظر آئی، چنانچہ وہ عبداللہ بن سبا کی صورت میں تاریخ کا نہایت پر اسرار اور گھناؤنا کردار منظر عام پر لائے۔ عبداللہ بن سبا یمن کے شہر صنعا کا یہودی باشندہ تھا۔ اس نے اسلام کا لبادہ اوڑھ
Flag Counter