Maktaba Wahhabi

233 - 241
لیا۔ یوں حضرت علی رضی اللہ عنہ کاشانۂ نبوی میں پرورش پاتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پروانۂ رسالت عطا فرمایا تو وہ بھی آپ پر ایمان لے آئے۔[1] پہلے پہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار یہ تھا کہ نماز کا وقت ہوتا تو آپ مکہ کی گھاٹیوں میں نکل جاتے اور چھپ کر نماز ادا کرتے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اکثر آپ کے ہمراہ ہوتے۔ ایک روز ابوطالب نے دونوں کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ انھیں بہت تعجب ہوا۔ انھوں نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ بھتیجے یہ کیسا مذہب ہے جس کی تم پیروی کرتے ہو، آپ نے جواب دیا: چچا! یہ اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کے رسولوں کا اور ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کا مذہب ہے۔ مجھے اللہ نے اپنا رسول بنایا ہے۔ میں آپ کی بھلائی سب سے بڑھ کر چاہتا ہوں، اسی لیے آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ راہ ہدایت اپنا لیجیے۔ اس سلسلے میں آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ میری دعوت قبول کریں اور مجھ سے بھرپور تعاون کریں ۔ ابوطالب نے کہا کہ بھتیجے! میں اپنے آباء و اجداد کا مذہب نہیں چھوڑ سکتا، ہاں اتنا ضرور کہتا ہوں کہ جب تک زندہ ہوں، کوئی تمھارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف متو جہ ہوئے اور کہا: بیٹا! یہ کیسا مذہب ہے جس پر تم عمل پیرا ہو۔ انھوں نے جواب دیا: ’’ابا! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا ہوں۔ میں ان کے ہمراہ نماز پڑھتا ہوں۔‘‘ ابوطالب نے کہا: ’’ہاں، ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ رہو۔ وہ تمھیں بھلائی ہی کی راہ دکھلائے گا۔‘‘[2]
Flag Counter