Maktaba Wahhabi

33 - 241
فرمایا: ’’عائشہ!‘‘ عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’میرا مطلب تھا آدمیوں میں سے۔‘‘ فرمایا: ’’عائشہ کا والد۔‘‘ [1] اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو جو فریضۂ رسالت سونپا تھا وہ آپ نے نہایت ذمہ داری سے سرانجام دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو مسلمان نہایت حیران ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو یہاں تک کہہ ڈالا: ’’کچھ منافق قسم کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں۔ بخدا! رسول اللہ نے وفات نہیں پائی۔ وہ تو موسیٰ بن عمران علیہ السلام کی طرح اپنے رب کے ہاں گئے ہیں۔ وہ ضرور واپس آئیں گے اور اُن لوگوں کے ہاتھ کاٹ ڈالیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں۔ کان کھول کر سن لو! میں نے جسے یہ کہتے سُن لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں، اپنی اِس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔‘‘ [2] حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ باتیں کہہ رہے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو چادر سے ڈھانپ کر گھر کے ایک گوشے میں رکھ دیا گیا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چہرۂ اقدس پر سے چادر کا پلو ہٹایا، مبارک پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا: ’’فداک أبی و أمی! (میرے ماں باپ آپ پر قربان) آپ زندہ و مردہ دونوں حالتوں میں پاکیزہ ہیں۔ اللہ نے آپ کے لیے جو موت لکھی تھی وہ آپ کو آگئی۔‘‘یہ کہہ کر چادر کا پلو دوبارہ چہرۂ اقدس پر ڈال دیا۔ کاشانۂ نبوی سے باہر آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی لہجے میں بول رہے تھے۔ انھیں
Flag Counter