Maktaba Wahhabi

78 - 241
تھا۔ میں بھی چل دیا۔ سوچا مے کدے میں جاتا اور شوق پورا کرتا ہوں۔ وہاں پہنچا تو مے کدہ بھی ویران پڑا تھا۔ پینے پلانے کو کچھ نہیں تھا۔ دل میں آیا چلو آج مے کدہ نہیں تو مسجد ہی سہی۔ کعبہ چلتے اور طواف کرتے ہیں، چنانچہ مسجد میں پہنچا۔ طواف کرنا چاہتا تھا کہ ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے دکھائی دیے۔ نماز پڑھ رہے تھے۔ معمول تھا کہ نماز پڑھتے تو شام کی طرف منہ کرتے۔ کعبہ آپ کے اور شام کے درمیان ہوتا۔ جائے نماز حجر اسود اور رکنِ یمانی کے بیچ تھی۔ دل میں کہا آج سنتا ہوں ذرا کہ محمد کیا پڑھتے رہتے ہیں۔ قریب ہو کر سنتا ہوں۔ مجھے دیکھیں گے تو گھبرا اٹھیں گے۔ میں حطیم کی جانب سے گیا اور غلافِ کعبہ میں چھپ کر دبے پاؤں آگے بڑھنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے قرآن مجید کی تلاوت کرتے تھے۔ میں غلافِ کعبہ کی اوٹ میں چلتا ہوا بالکل روبرو آگیا۔ اب میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ صرف غلافِ کعبہ تھا۔ میں نے قرآن کی تلاوت سنی تو دل نرم پڑگیا اور میں رو دیا۔ اسلام نے میرے دل میں جگہ بنالی۔‘‘ [1] قرآن مجید کی آیات سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دل آخر کیونکر نرم نہ پڑتا۔ وہ تو بڑے صاحبِ ذوق اور فصیح و بلیغ آدمی تھے۔ زبان و بیان کی نزاکتوں سے بخوبی آگاہ تھے۔ اچھا اسلوب بیان انھیں متأثر کیے بنا نہیں رہتا تھا، پھر یہ تو کلامِ الٰہی تھا جس کی فصاحت وبلاغت کے آگے عرب کے بڑے بڑے فصیحوں کی زبانیں گنگ تھیں۔ تلاوت بھی کیسی! خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور مسحور کن لہجے میں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
Flag Counter