Maktaba Wahhabi

79 - 241
کو تو متأثر ہونا ہی تھا۔ یہ وہ بابرکت لمحے تھے کہ عمر بن خطاب نے نیا جنم لیا۔ انھوں نے زندگی کے نئے اور انوکھے کارزار میں قدم رکھا۔ آیاتِ قرآنی نے ان کا دل پاکیزہ کر دیا اور ان کی کایا پلٹ ڈالی تھی۔ ان سے بھی پہلے قریش کے اصحاب سخن اور اساتذۂ کلام نے قرآنی آیات سن کر قرآن مجید کی معجز بیانی کا دم بھرا اور اس کی فصاحت و بلاغت کا لوہا مان کر اسلام قبول کیا تھا۔ مثال کے طور پر جاہلیت کے ممتاز شاعر لبید بن ربیعہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ لبید بن ربیعہ کا شمار دورِ جاہلیت کے سات بہترین شعرائے عرب میں ہوتا ہے۔ یہ سات شاعر سخن گوئی کے بلند ترین معیار پر پورے اترے تھے۔ دورِ جاہلیت میں مکہ کے قریب ہر سال عکاظ کا روایتی میلہ منعقد ہوتا تھا۔ عرب کے مانے ہوئے سخن ور اس میلے میں اپنا تازہ کلام لے کر آتے۔ شعر و شاعری کی محفلیں آراستہ ہوتیں۔ عرب کے ممتاز نقادانِ فن انجمن آرا ہوتے۔ شعرا کا کلام سنتے اور اُسے انتقادِ شعری کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھتے۔ جس شاعر کا کلام مطلوبہ معیار پر پورا اترتا اسے زریں حروف میں لکھ کر باب کعبہ پر آویزاں کر دیا جاتا۔ ایسے قصائد مَعَلَّقَاتٌ کہلاتے۔ معلقات کی تخلیق کا اعزاز عرب کے بہت کم شاعروں کو حاصل ہوا۔ اس دور کے سات معلقات مشہور ہیں۔ ان میں ایک معلقہ لبید بن ربیعہ کی شاہکار تخلیق ہے۔ پر شکوہ الفاظ، پختہ اسلوب بیان، حکمت و دانائی اور نازک خیالی لبید کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ اس کی شاعری میں بدوی پندار اور کھرے پن کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔ لبید نے لوگوں کی زبانی سنا کہ محمد نے دعویٰ کیا ہے، جو کلام وہ لے کر آیا ہے اس جیسا کلام عرب کا کوئی بڑے سے بڑا فصیح بھی تخلیق نہیں کرسکتا۔ اگر کسی میں دم ہے تو
Flag Counter