Maktaba Wahhabi

82 - 241
چاہاکہ دنیا کو علانیہ بتادیں کہ وہ مسلمان ہوگئے ہیں، چنانچہ قریش کی ایک محفل میں انھوں نے کسی سے پوچھا کہ مکہ کا کون آدمی ڈھنڈورا پیٹنے میں سب سے تیز ہے۔ جمیل بن معمر جمحی کا نام لیا گیا۔ وہ سیدھے جمیل کے ہاں پہنچے اور اسے بتایا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ جمیل نے جونھی یہ بات سنی، اٹھ کھڑا ہوا۔ حرمِ کعبہ میں پہنچا اور بلند آواز سے پکارا: ’’قریش کے لوگو! سن لو، عمر بن خطاب بے دین ہوگیا۔‘‘ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس کے پیچھے پیچھے حرم کعبہ میں گئے اور آپ نے بلند آواز سے کہا: ’’یہ جھوٹ بولتا ہے۔ میں تو اسلام لایا ہوں۔ میں نے شہادت دی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ یہ اعلان سنتے ہی عتبہ بن ربیعہ ان کی طرف لپکا۔ وہ بھی ہوشیار کھڑے تھے۔ دونوں میں پنجہ آزمائی ہونے لگی۔ مضبوط و توانا عمر رضی اللہ عنہ نے عتبہ کو چاروں شانے چت کر ڈالا اور اس کے دیدوں میں انگلیاں گھسیڑ کر بولے: ’’نکال دوں گا یہ دیدے کہ انھیں روشنی دکھائی نہیں دیتی۔‘‘ یہ منظر دیکھ کر کئی اور لوگ آستینیں چڑھائے ان کی طرف بڑھے تاہم جو بھی ان کے قریب آیا، انھوں نے روئی کی طرح دھنک ڈالا۔ لڑتے بھڑتے خاصی دیر ہوگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھک کر بیٹھ گئے۔ اہل قریش سر پر آکھڑے ہوئے۔ انھیں برا بھلا کہنے لگے۔ فرمایا: ’’جو جی میں آئے، کرو۔ بخدا! اگر ہم تین سو آدمی ہوتے تو مکہ میں یا ہم رہتے یا تم۔‘‘ [1] اتنے میں قریش کا ایک معمر سردار ادھر آنکلا۔ وہ نہایت بیش قیمت، مرصع و منقش قمیص اور عمدہ یمنی چادر زیب تن کیے تھا۔ بولا: ’’کیا بات ہے؟‘‘
Flag Counter