Maktaba Wahhabi

83 - 241
لوگوں نے کہا: ’’عمر بے دین ہوگیا ہے۔‘‘ ’’تو کیا ہوا؟!‘‘ معمر سردار نے پختہ لہجے میں کہا۔ ایک آدمی نے اپنے لیے ایک بات پسند کی تو تمھارا کیا گیا؟! کیا سمجھتے ہو تم! بنوعدی اپنے آدمی کو یوں تمھارے حوالے کر دیں گے اور تم سے کچھ باز پُرس نہیں کریں گے؟! ہٹ جاؤ یہاں سے۔ چھوڑ دو اُسے۔‘‘ بوڑھے سردار کے کہنے پر لوگوں کی بھیڑ یوں چھٹ گئی جیسے کوئی کپڑا تھا جسے یکبارگی کھینچ کر اتار دیا گیا۔ سردار کا نام تھا، عاص بن وائل سہمی۔[1] یہاں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سیدھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا یارسول اللہ! کیا ہم حق پر نہیں، چاہے مر جائیں، چاہے جیتے رہیں۔ فرمایا: ’’کیوں نہیں! قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم بلاشبہ حق پر ہو، زندہ رہو یا نہ رہو۔‘‘ عرض کیا تو پھر چھپ کر رہنے کا کیا مطلب ہے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا، ہم تو ضرور باہر نکلیں گے، چنانچہ رہروانِ جادۂ حق کی دو صفیں بن گئیں۔ ایک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جلوہ افروز ہوئے اور دوسری میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جلو میں آگے بڑھے۔ بڑا دیدنی منظر تھا یہ۔ وہ جو ش و جذبہ سے قدم اٹھاتے ہوئے حرم کعبہ میں داخل ہوئے۔ اہل قریش نے یہ منظر دیکھا تو ان کے چہروں پر مردنی چھاگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہوتے ہوئے کسی ادنیٰ و اعلیٰ کو جرأت نہ ہوئی کہ ان کے قریب پھٹکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فاروق کا لقب دیا۔ فاروق جس
Flag Counter