Maktaba Wahhabi

127 - 224
عللِ مسلک کی تعیین اور اُصول فتاویٰ کی تمہید تیار ہو جائے گی۔ استنباط اور ترتیب و تدوین کا اس دور میں بہت زیادہ کام ہوا ۔ طرح طرح کے مباحثے اور مناقشے مرتب شکل میں سامنے آئے جن کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے اور خدا جانے اس کے بعد کیا ہو گا۔ خلافیات و مناظرات کی کثرت کے یہی اسباب ہیں ۔ اہل دنیا اگر کسی دوسرے امام اور دوسرے علم کی طرف مائل ہوتے تو یہ بھی ان کا ساتھ دیتے ۔ مگر یہ سبب وہ ضرور بتلاتے کہ وہ جو کام کر رہے ہیں اس کا تعلق علم دین سے ہے اور ان کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی خوش نودی و رضا مندی ہے۔ مندرجہ بالا تحریر میں ان خیالات و افکار کی جھلک نظر آتی ہے: ۱۔ امام غزالی نے اس اُمت کی دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے جو ائمہ راشدین کے بعد فکری اور سیاسی قیادتوں میں اختلاف کی صورت میں رونما ہوا اور جس نے ہماری تاریخ کو ایساداغ لگایا جسسے آج تک ہمیں نجات نہ مل سکی اور یہ مشق و ممارست ان امراء اور سیاست دانوں کے طفیل میں ظہور پذیر ہوئی جنہیں اسلامی اور شرعی سیاست سے ناواقفیت تھی … ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے نظری اور فرضی فقہی مسائل بھی عالم وجود میں آگئے جن کا انسانی معاملات سے قریبی تعلق نہیں اور نہ ان کا اس طرح کوئی عملی حل ہے۔ جیسا عہد صحابہ و تابعین میں ہوا کرتا تھا۔ بہت سے اُصولی و فقہی مسائل ایسے ملیں گے جو مفروضات کی بنیادوں پر قائم ہیں ۔ جنہیں مناظروں ، مجادلوں اور خلافیات نے جنم دیا ہے۔ ۲۔ فقہ جو ضوابطِ شریعت سے انسانی زندگی اور اس کے معاملات کو منسلک کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے اسے ان بے اعتدالیوں نے بعض غیر واقعی چیزوں کے جواز کا وسیلہ بھی بنا لیا۔ جس سے مسلمانوں کی تشریعی زندگی میں اضطراب اور بے چینی پھیل گئی اور ایسا بھی ہونے لگا کہ ایک شخص کا کوئی عمل ایک ہی جگہ اور ایک ہی وقت میں کسی کے یہاں حلال ہے اور کسی کے یہاں حرام۔ نیتوں اور حیثیتوں کے استثنائی فرق کے باوجود یہ چیز عوام کے لیے باعث انتشار ہے۔ یہ صورت ’’مخارج وحیل ‘‘ کے نام سے فقہ کا ایک معروف
Flag Counter