Maktaba Wahhabi

138 - 224
کوشش کرتے ہیں انہیں عام طور پر ایسی سختیوں اور تنگیوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے کہ وہ دل برداشتہ ہو کر راستہ ہی سے واپس پلٹ جائیں ۔ اور اگر جرأت کے ساتھ کوئی آگے بڑھنا بھی چاہے تو ا س اور دوسروں کے درمیان تمیز اورتفریق برتی جاتی ہے۔ مختلف کاموں ، ملازمتوں ، مرتبوں ، عہدوں میں یہ امتیاز دیکھ کر ظلم و نا انصافی اور اپنی ناقدری کا اسے شدید احساس ہوتا ہے۔ اسی لیے اکثر مسلم ممالک میں اسلامی تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد کم ہو گئی اور ان کا معیار بھی گر گیا اور جو اس میدان میں آتے ہیں گویا دنیاوی لحاظ سے وہ ایسے کاشتکار کی طرح ہو جاتے ہیں جو کھیتی کرے مگر اسے کاٹنے کی اُمید نہ رکھے اور کچھ مخصوص حالات ہی میں لوگ اس تعلیم کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں اور تکمیل علوم کے بعد بھی اس کی عملی مشکلات سے انہیں آزادی نہیں مل پاتی۔ کیونکہ ان کے سامنے راستے بند نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے دعوتِ دین اور معاشرے میں اپنا وہ کردار نہیں ادا کر پاتے جو انہیں کرنا چاہیے۔ بند دروازوں کے سامنے ان کا استقلال اور ان کی استقامت جواب دینے لگتی ہے ان کی اپنی شخصیت کمزور پڑنے لگتی ہے جس سے مجبور ہو کر وہ ایسے سرکاری مذہبی اداروں سے وابستہ ہو جاتے ہیں جو پہلے ہی سے ایسے لوگوں کے لیے تیار رکھے جاتے ہیں تاکہ وہ سب سے الگ تھلگ ہو کر انہیں محدود اور منصوبہ بند اغراض و مقاصد کی خدمت انجام دیتے رہیں اور کسی دوسرے کام کی طرف ان کا ذہن نہ جا سکے۔ کیونکہ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کی راہ میں ان کے سامنے رکاوٹ کھڑی ہو جاتی ہے اور ان سے عام مسلمانوں کا اعتماد بھی باقی نہیں رہتا۔ اس اُمت اور اس کے عقیدہ کے درمیان خلیج کچھ اور گہری کرنے اور شریعت اسلامیہ سے وابستہ اس کی جڑیں کٹنے کے لیے استعمار پسندوں نے اسلام اور عربی زبان کی تعلیم کو ذیلی حیثیت دے کر اپنے پسندیدہ افکار و مبادی کے لیے میدان خالی کر دیا اور اس کے گرد منڈلانے کے لیے نوجوانانِ ملت کے سامنے پر کشش چیزیں رکھ دیں ، لیکن کڑوے کسیلے ذائقہ اور کانٹوں کے سوا انہیں کچھ نہ ملا۔ نوجوان مسلم نسل نے ہر فکری اور نظریاتی رنگ کا تجربہ کر لیا ۔ کمیونزم، سوشلزم، نیشنلزم جیسی بے بنیادی تحریکوں نے پہلے سے زیادہ ذلت و رسوائی
Flag Counter