Maktaba Wahhabi

34 - 224
تو دونوں فریق میں سے کسی سے بھی آپ نے کوئی باز پرس اور تنبیہ نہ کی۔ [1] اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ ادا ء عصر کے لیے صحابۂ کرام کے مؤقف الگ الگ تھے۔ ایک فریق نے ظاہر لفظ ( باصطلاح مناطقہ) یا عبارۃ النص (با صطلاح احناف ) پرعمل کیا اور دوسر ے فریق نے نص کے معنی مخصوص کا استنباط کیا۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تصویب کی جو اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں موقف صحیح ہیں ۔ اور ظاہر نص پر عمل کے علاوہ مضبوط دلائل کے ساتھ معانی و مفاہیم کا استنباط کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ صحیح علم اور مطلوبہ صلاحیت پائی جائے۔ صحابۂ کرام کے فریق ثانی نے یہی سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود صرف جلدی اور تیز رفتاری ہے۔ اس لیے انہوں نے دیارِ بنی قریظہ پہنچنے سے پہلے نمازِ عصر پڑھنے کو جب کہ وہ سبب تاخیر نہ ہو حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نہیں سمجھا… امام ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ فقہاء کا اس سلسلے میں اختلاف ہے کہ کس فریق کا عمل زیادہ صحیح اور بہتر تھا ۔ کسی نے کہا کہ افضل فریق وہ ہے جس نے راستے میں نماز پڑھ کر اس امر رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بجا آوری میں سبقت حاصل کر لی کہ نماز اپنے وقت پر پڑھو۔ اور کسی نے کہا کہ افضل وہ ہے کہ جس نے دیارِ بنی قریظہ جلد پہنچنے کے لیے نماز مؤخر کر دی۔ [2] میرااپنا خیال یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی فریق کے عمل ۔پر اظہارِ ناراضگی نہیں فرمایا اور آپ کے سامنے ہی اس کا فیصلہ بھی ہو گیا تو اس معاملے میں زیادہ غورو خوض کرنا مناسب نہیں ۔ ب:… عمرو بن عاصرضی اللہ عنہ نے کہاغزوۂ ذات السلاسل[3]کے موقع پر ایک سرد رات میں مجھے احتلام ہوا۔ اگر میں غسل کرتا تو ہلاکت کا خطرہ تھا اس لیے تیمم کر کے جماعت سے
Flag Counter