Maktaba Wahhabi

55 - 104
بتدریج قانون کا پابند بنایا جائے۔اگر انہیں یکبارگی مقیّد کیا جاتا تو یقناً اصلاح وتہذیب کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی وہ بھاگ گئے ہوتے جیسا کہ صحیح بخاری شریف میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((اِنَّمَا نَزَلَ اَوَّلَ مَانَزَلَ مِنْہُ سُوْرَۃٌ مِنَ الْمُفَصَّلِ فِیْھَا ذِکْرُ الْجَنَّۃِ وَالنَّارِ،حَتَّی اِذَا ثَابَ النَّاسُ عَلَیٰ الْاِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ وَلَوْنَزَلَ اَوَّلُ شَیٍٔ: لَا تَشْرَبُوالْخَمْرَ،لَقَالُوا:لَانَدَعُ الْخَمْرَاَبَداً،وَلَوْنَزَلَ لَا تَزْنُوْا،لَقَالُوْا:لَانَدَعُ الزِّنَا اَبَداً)) [1] ’’شروع میں قرآنِ کریم کی ایک مفصّل سورت نازل ہوئی جس میں جنت وجہنم کا ذکر ہے،یہاں تک کہ بکثرت لوگ اسلام میں داخل ہو(کرراسخ ہو)گئے،اور اگر شروع میں ہی یہ نازل کردیا جاتا کہ:شراب مت پیوتو(ممکن تھا کہ) لوگ پکار اٹھتے کہ ہم شراب نہیں چھوڑیں گے۔اور اگر یہ نازل ہوجاتا کہ:زنا نہ کرو تو لوگ کہہ دیتے کہ ہم زنا ترک نہیں کرینگے۔‘‘ شارح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے اس ارشاد میں ترتیب وتدریجِ نزول میں پائی جانے والی حکمتِ الٰہیہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔غرض قرآنِ کریم کا وہ حصّہ سب سے پہلے نازل کیا گیاجس میں توحیدِ باری تعالیٰ کی طرف دعوت دی گئی ہے اور مؤمن ومطیع کو جنت کی بشارت اور کافر ونافرمان کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے اور جب انکے قلوب ونفوس اس پر مطمئن ہوگئے،تب جاکر آیاتِ احکام کا نزول شروع کیا گیا۔‘‘[2]
Flag Counter