Maktaba Wahhabi

69 - 104
((فَکُنَّا بَعْدَ ذَالِکَ نَصُوْمُہٗ وَ نُصَوِّمَہٗ صِبْیَانَنَا الصِّغَارَ مِنْھُمْ وَنَذْھَبُ اِلٰی الْمَسْجِدِ فَنَجْعَلُ لَھُمُ اللُّعْبَۃَ مِنَ الْعِھْنِ۔فَاِذَا بَکَیٰ اَحَدُھُمْ مِنَ الطَّعَامِ اَعْطَیْنَاھَا اِیَّاہُ حَتَّی یَکُوْنَ عِنْدَ الْاِفْطَارِ)) ’’اسکے بعد سے ہم لوگ یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی رکھواتے تھے۔ ہم مسجد میں جاتے تو بچوں کو کھیلنے کیلئے روئی کا کھلونا بنادیتے تھے جب کوئی بچہ کھانے کی ضد کرتااورروتا تو اسے کھلونا دے کر بہلا لیتے حتی کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔‘‘ امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں پکڑکر لائے جانے والے شرابی سے مخاطب ہوکر فرمایا: ((وَیْلَکَ وَصِبْیَانُنَا صِیَامٌ)) ’’تیرا براہو ،ہمارے تو بچے بھی روزے سے ہیں۔‘‘ اور اسے مارا۔ اس اثر کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے تو تعلیقاً بیان فرمایا ہے البتہ سنن سعید بن منصور اور الجعدیات بغوی میں مرفوعاً بھی مروی ہے اور بغوی کی ایک روایت میں تو یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اسّی کوڑے مارنے اور شام کی طرف ملک بدر کردینے کا حکم فرمایا۔[1] غرض امام ابن سیرین،زہری،شافعی اور سلفِ صالحین رحمۃ اللہ علیہم کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ جب بچہ روزہ رکھ سکنے کی طاقت کو پہنچ جائے تو اسے روزے کی عادت ڈالنے کے لیے روزہ رکھنے کا حکم دینا چاہیئے۔ایسے بچے کی عمر کے سلسلہ میں سات،دس اور بارہ سال کے مختلف اقوال ملتے ہیں۔[2]لیکن اس سلسلہ میں کوئی واضح دلیل نہیں ہے لہٰذا عمر کی بجائے طاقت وقدرت کا ہی اعتبار ہوگا۔
Flag Counter