Maktaba Wahhabi

285 - 346
’’ ہم نے اس قرآن کو ایک بابرکت رات میں نازل فرمایا ہے۔ ‘‘ اور یہی وہ رات ہے کہ جس کا معاملہ اللہ کریم نے بڑا کرکے اس کا نام ’’ لیلۃ القدر ‘‘ رکھ دیا ہے۔ جیسا کہ اُس کا ارشادِ گرامی قدر ہے: ﴿إِنَّا أَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِo﴾(القدر:۱) ’’ بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اُتارا ہے۔ ‘‘ قرآنِ حکیم کو اس رات میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا میں بیت العزت تک ایک ہی بار اُتار دیا گیا تھا۔ پھر بعد میں ضرورت و واقعات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر علیحدہ علیحدہ تھوڑا تھوڑا کرکے اُترتا رہا۔ جیسا کہ کئی ایک اسناد سے سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ اور رمضان المبارک کی ہی راتوں میں سے ایک مبارک لیلۃ القدر میں پورے ایک سالہ کا معاملہ(جو زمینی مخلوقات سے متعلق ہوتا ہے۔)لوحِ محفوظ سے لکھنے والے فرشتوں کے لیے الگ کردیا جاتا ہے۔ کہ جس میں مخلوقات کی اموات، اُن کے رزق اور وہ تمام معاملات جو اس سال ہونا ہوتے ہیں۔ اور یہ معاملہ نہایت محکم ہوتا ہے کہ جس میں ذرہ بھر بھی تغیر و تبدل نہیں ہوتا۔ اس کی وضاحت اللہ عزوجل کے اس فرمان میں موجود ہے: ﴿فِیْہَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ o اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا اِِنَّا کُنَّا
Flag Counter