Maktaba Wahhabi

342 - 447
سنن ابی داود، نسائی، دارقطنی، دارمی اور مستدرک حاکم میں ایک مختلف فیہ سند سے، مگر صحیح ابن السکن میں صحیح اور موصول سند سے مروی ہے، جس میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دو آدمی سفر پر نکلے۔ کہیں انھیں نماز کا وقت ہوگیا، لیکن ان کے پاس پانی نہیں تھا، لہٰذا ان دونوں نے تیمم کرکے نماز ادا کی۔ پھر انھیں پانی مل گیا تو ان میں سے ایک نے وضو کر کے وہ نماز دہرائی، مگر دوسرے نے نہیں دہرائی۔ جب انھوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ سنایا تو نماز دہرانے والے سے مخاطب ہو کر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَصَبْتَ السُّنَّۃَ وَأَجْزَأَتْکَ صَلَاتُکَ )) ’’تم نے سنت کو پا لیا اور تمھاری نماز ہو گئی۔‘‘ گویا ان الفاظ سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز نہ دُہرانے والے کے فعل کو سنت کے مطابق قرار دیا اور دوسرے کے اجتہاد کو غیر صحیح قرار دیا۔ تاہم اس سے مخاطب ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَکَ الْأَجْرُ مَرَّتَیْنِ )) [1]’’تمھیں دوہرا ثواب ہوگا۔‘‘ یعنی تیمم سے ادا کرنے کا بھی اور وضو سے ادا کرنے کا بھی۔ کیوں کہ جب وہ دونوں ہی صحیح تھیں تو دونوں ہی کا ثواب بھی ملے گا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا اور اس سے بھی یہ معلوم ہوا کہ اجتہاد میں خطا ہو جانا اس عمل پر اجر حاصل ہونے کے منافی نہیں، بلکہ اجتہاد میں خطا پر بھی اجر ملتا ہے۔ جیسا کہ صحیحین، سنن اربعہ اور مسند احمد میں معروف حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَہٗ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَھَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَہٗ أَجْرٌ )) [2] ’’جب کوئی شخص فیصلہ کرے اور اجتہاد سے کام لے اور اپنے اجتہاد میں صحیح حکم کو پالے تو اسے دو اجر ملتے ہیں اور اگر فیصلہ کرنے والے نے اجتہاد کیا اور خطا کر گیا تواسے (اجتہاد کا) ایک اجر ملے گا۔‘‘ کسی فعل پر اجر کے ثابت ہونے سے اس فعل کا صحیح ہونا بھی لازم نہیں آتا، جیسا کہ اس ذکر
Flag Counter