Maktaba Wahhabi

401 - 447
دوبارہ واپسی کا دعویٰ کرے، وہ کسی صریح دلیل سے کرے، مگر یہ کیسے ثابت کیا جاسکتا ہے؟[1] امام حازمی نے اپنی کتاب ’’الاعتبار‘‘ میں کافی تفصیل کے ساتھ پہلے حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ کی سند میں نکارت اور روایت میں ضعف و رکاکت ثابت کی ہے اور پھر حدیثِ طلق رضی اللہ عنہ کو منسوخ اور حدیث بسرہ رضی اللہ عنہ کو ناسخ ثابت کیا ہے، اس نسخ کو یہ بات اور بھی یقینی کر دیتی ہے کہ خود حضرت طلق رضی اللہ عنہ ہی سے مسِ فرج سے نقضِ وضو کی حدیث بھی مروی ہے، جو اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت طلق رضی اللہ عنہ دونوں حالتوں کے شاہد ہیں، انھوں ہی نے ناسخ حدیث بیان کی ہے، جب کہ انھوں نے پہلے والی منسوخ حدیث بھی بیان کی تھی۔ امام حازمی کے جس کلام کا خلاصہ ہم نے ذکر کیا ہے، اسے نقل کرنے کے بعد علماے احناف میں سے علامہ عبد الحی لکھنوی نے شرح وقایہ کے حاشیہ شرح ’’السعایۃ‘‘ میں لکھا ہے: ’’ھٰذَا تَحْقِیْقٌ حَقِیْقٌ بِالْقُبُوْلِ‘‘ ’’یہ تحقیق اس بات کی مستحق ہے کہ اسے قبول کیا جائے۔‘‘ موصوف مزید لکھتے ہیں: ’’جانبین کے دلائل پر نظر ڈالنے کے بعد یہ بات متحقق ہوجاتی ہے کہ نقضِ وضو پر دلالت کرنے والی احادیث، عدم والی احادیث سے اکثر اور اقوی ہیں اور رخصت یا عدمِ نقض والی احادیث پہلے کی ہیں۔ اگرچہ اس بات کا یقینی ثبوت کوئی نہیں کہ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی مرویات مراسیلِ صحابہ میں سے ہیں، لیکن ظاہر وہی ہے۔ لہٰذا نقضِ وضو کو اختیار کرنے ہی میں زیادہ احتیاط ہے اور اگرچہ یہ مسئلہ ہر اعتبار سے قیاس کے خلاف ہے، لیکن جب حدیث آجائے تو پھر وہاں قیاس کی مجال ہی کیا ہے؟‘‘ آگے علامہ لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بعض کبار صحابہ مثلاً حضرت عبد اللہ بن عباس، علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا عدمِ نقض کا قائل ہونا مرفوع احادیث کے صحیح سند سے ثابت ہو جانے کے بعد قادح نہیں رہتا۔ ان کی طرف سے یہ عذر ہو سکتا ہے کہ انھیں حضرت طلق رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اسی مفہوم کی
Flag Counter