Maktaba Wahhabi

440 - 447
بالکل یہی معاملہ احادیث سے استدلال کا بھی ہے کہ وہ بھی اس مسئلے میں ان کی دلیل نہیں بن سکتیں، جیسا کہ سنن ترمذی، نسائی، دارقطنی، بیہقی، مسندِ احمد اور مستدرکِ حاکم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اس آدمی کے بارے میں کیا فرماتے ہیں، جو اپنی پہچان والی کسی غیر محرم عورت سے ملا اور صرف جماع کو چھوڑ کر اس سے ہر وہ فعل کیا، جو کوئی شوہر اپنی بیوی سے کرتا ہے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورت ھود کی آیت (۱۱۴) نازل فرمائی، جس میں فرمایا: {وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ} ’’ اور دن کے دونوں سروں (صبح اور شام کے اوقات میں) اور رات کی چند (پہلی) ساعات میں نماز پڑھا کرو، کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘ تب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے فرمایا: (( تَوَضَّأْ ثُمَّ صَلِّ )) [1] ’’وضو کرو اور پھر نماز پڑھو۔‘‘ قائلینِ نقض کہتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو وضو کرنے کا حکم فرمایا، حالانکہ اس نے جماع کی نفی کی تھی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ استدلال کئی لحاظ سے صحیح نہیں: 1۔اس لیے کہ یہ حدیث ’’عبدالملک بن عمر عن عبدالرحمن بن أبي لیلیٰ عن معاذ‘‘ کی سند سے مروی ہے اور اس سند میں انقطاع پایا جاتا ہے، کیوں کہ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں اور سنن نسائی میں ہے: ’’شعبۃ عن عبد الرحمٰن قال: إنّ رجلاً۔۔۔ فذکر الحدیث‘‘ یہ روایت مرسل ہے، کیوں کہ اس میں عبدالرحمن نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا ذکر ہی نہیں کیا، بلکہ تابعی نے صحابہ کے واسطے کے بغیر ہی قصہ نقل کر دیا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ تو صحیحین میں بھی مذکور ہے، مگر وہاں وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کے سرے سے الفاظ ہی مذکور نہیں ہیں۔ 2۔اس لیے بھی اس حدیث سے استدلال درست نہیں، کیوں کہ یہ ثابت نہیں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter