Maktaba Wahhabi

65 - 447
ہے اور جو ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق خود نجس نہیں ہوتا، اس کا جُھوٹا کیسے نجس ہوگا؟ یہ بڑی عام فہم سی بات ہے۔ ان واقعات سے مومن ومسلم کے جھُوٹے کے ناپاک نہ ہونے کے علاوہ بندۂ مومن ومسلم کے لیے عبرت و بصیرت کا سامان اور باہم بعض آداب بھی بیان ہوئے ہیں، مثلاً یہ کہ کسی عظیم الشان کام سے دوچار ہونا ہو تو اس سے پہلے طہارت وغسل کرلینا مشروع ہے۔ دُوسرے یہ کہ اہلِ علم و فضل اور مربی و معلّم کا احترام و اکرام اور عزت و توقیر کرنی چاہیے اور ان کی مجلس و صحبت میں بیٹھنے کے لیے عمدہ و اعلیٰ حالت اور کامل و مکمل طہارت سے ہوں تو یہ عین قرینِ ادب ہے، جیسا کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہما کے فعل میں پائے جانے والے کمالِ ادب سے پتا چلتا ہے اور المجد ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ نے تو ان واقعات سے یہ بھی استدلال کیا ہے کہ جب مومن ومسلم نجس نہیں ہوتا، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اسے چُھوجانے سے پانی یعنی ’’مستعمل پانی‘‘ نجس ہو جائے؟ [1] حیض و نفاس، جو عورت کے فِطری عذر ہیں، ان کے دَوران بھی اس کا جُھوٹاپاک ہی ہوتا ہے، نجس وناپاک نہیں ہوتا، اس کی دلیل صحیح مسلم، سنن ابی داد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی اور مسند احمد میں مذکور وہ حدیث ہے، جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: (( کُنْتُ أَشْرَبُ وَأَنَا حَائِضٌ فَأُنَاوِلُہٗ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَیَضَعُ فَاہُ عَلَیٰ مَوْضِعِ فِيَّ )) [2] ’’میں ایامِ حیض کے دَوران میں کسی برتن سے پانی پیتی، پھر میں وہی برتن نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑا دیتی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس برتن سے پانی پیتے ہوئے عین اسی جگہ سے مُنہ لگا کر پیتے جہاں مُنہ لگا کر میں نے پیا ہوتا۔‘‘ جب کہ مذکورہ کتب ہی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ بھی منقول ہیں: (( کُنْتُ أَتَعَرَّقُ الْعَرَقَ، فَیَضَعُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَاہُ حَیْثُ وَضَعْتُ وَأَنَا حَائِضٌ )) [3]
Flag Counter