Maktaba Wahhabi

120 - 277
اور اس سے مقصود یہ ہے کہ سچے مومن بس وہی لوگ ہیں جن کا قول وفعل اور اعتقاد ہر قسم کے شک وشبہ سے پاک ہوتا ہے۔اسی لئے اس کے آخر میں فرمایا:﴿أُوْلٰئِکَ ھُمُ الصَّادِقُوْنَ﴾’’یہی لوگ سچے ہیں۔’‘ نیز اس آیت میں اس بات کی دلیل بھی ہے کہ عمل ایمان میں شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کی خصلتوں میں جہاد فی سبیل اللہ بھی ذکر کیا ہے۔اور اس کی ایک اور دلیل صحیحین کی ایک حدیث ہے جس میں حضرت ابو حمزہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ عبد القیس کا ایک وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش آمدید کہا اور اسے چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا۔جن چار باتوں کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حکم دیا ان میں سب سے پہلی بات تھی ایک اللہ پر ایمان لانا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ ایمان باللہ کیا ہے ؟ انھوں نے کہا:اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(شَہَادَۃُ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ،وَإِقَامُ الصَّلاَۃِ،وَإِیْتَائُ الزَّکَاۃِ،وَصَوْمُ رَمَضَانَ،وَأَنْ تُؤَدُّوْا خُمُسًا مِنَ الْمَغْنَمِ۔۔۔) ‘’یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔نماز قائم کرنا،زکاۃ ادا کرنا،رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم غنیمت کے مال سے پانچواں حصہ ادا کرو۔۔‘‘[صحیح البخاری:مواقیت الصلاۃ،باب(منیبین إلیہ واتقوہ وأقیموا الصلاۃ ولا تکونوا من المشرکین)،مسلم:الإیمان،باب الأمر بالإیمان باللّٰه تعالیٰ ورسولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم وشرائع الدین والدعاء إلیہ۔۔۔] اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان باللہ کی جو تفسیر فرمائی اس میں اسلام کے
Flag Counter