Maktaba Wahhabi

68 - 277
اسی طرح اس کی ان صفات عالیہ کو بھی تسلیم کرتے ہیں جو کمال پر دلالت کرتی ہیں۔اوروہ صفات جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نیبیان فرمائی ہیں ہم ان سب کو اپنی عقلی آراء کے دخل کے بغیر مانتے ہیں۔مثلا(علیم،رحیم،سمیع،بصیر)وغیرہ۔سو اللہ تعالیٰ سنتا اور دیکھتا ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔رحم فرماتا ہے اورغضبناک بھی ہوتا ہے۔اور دیتا ہے اور روکتا ہے،کسی کو ذلیل کرتا اور کسی کو عزت دیتا ہے۔۔۔ اسی طرح اللہ کی ذاتی صفات ہیں مثلا چہرہ اور ہاتھ وغیرہ۔ان صفات کے بارے میں ہم یہ قطعا نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ یہ صفات انسانوں میں بھی پائی جاتی ہیں اس لئے ہم انھیں اللہ تعالیٰ کیلئے تسلیم نہیں کرتے کیونکہ اس کیلئے ان کو تسلیم کرنے سے خالق کی مخلوق سے تشبیہ لازم آتی ہے ! بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کیلئے وہ اسماء وصفات ہیں جو اس کے شایانِ شان ہیں اور جو اس کی عظمت اور کبریائی کے لائق ہیں۔اور مخلوق کیلئے وہ اسماء وصفات ہیں کہ جو اس کے لائق ہیں۔نام میں اشتراک یا نام اور معنی میں اشتراک حقیقی اشتراک کا متقاضی نہیں ہے۔ اس حقیقت کو ایک مثال کے ذریعے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ جنت میں مثلا انگور،اناراور کھجوریں ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔اور ان ناموں کے پھل دنیا میں بھی موجود ہیں۔اور حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ نام تومشترک ہیں لیکن جنت کے پھل دنیا کے پھلوں جیسے ہرگزنہیں ہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات ہیں جو کہ نام ومعنی کے اعتبار سے اگرچہ مخلوق کے اسماء وصفات کے ساتھ مشترک ہیں لیکن حقیقت اور کیفیت کے اعتبار سے یقینا مختلف ہیں اور ان کی حقیقت وکیفیت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔لہذا ان میں تشبیہ بالکل نہیں ہے کیونکہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے مشابہ ہو ہی نہیں سکتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
Flag Counter