Maktaba Wahhabi

72 - 112
عنہ نے کہا کہ ہم کو یہ بات پہنچی ہے کہ (سورہ حجرات کی )یہ آیت۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا۔ ۔۔۔ اس بات میں اتری۔ ‘‘ اس حدیث پر مصنف کے دو اعتراضات ہیں ایک کہ آپس میں لاٹھیاں اور جوتیاں چلیں۔ دوم۔ آیت کے سیاق وسباق سے معلوم ہوتا ہے کہ جب دو ایمان والوں کی جماعت میں لڑائی ہو تو صلح کرادی جائے حدیث میں تو دو ایمان والوں کی جماعتیں ہیں ہی نہیں ایک طرف تو مسلمان ہیں دوسری طرف عبداللہ بن ابی اور اس کا لشکر جو ابھی ایمان نہیں لایا۔ ۔۔۔۔ اعتراض نمبر ایک کا جواب:ابن ابی کا نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ گستاخی کرنا اور صحابی رضی اللہ عنہ کا جواب دینا یہ تو یقیناً ایمان کی علامت ہے ایسا کون امتی ہے جو یہ برداشت کرے کہ اس کے سامنے اس کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی ہو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو جواب دیا وہ ایمانی حالت کی دلیل ہے مصنف کی حالت تو بالکل اس کے برعکس ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘لہٰذا گستاخی کی سزا وہ بھی نبوت کے منہج میں تو وہ صرف اورصرف موت ہے۔ اعتراض نمبر دو کا جواب :اس کا جواب یہ ہے کہ جس حدیث کو مصنف نے بطور اعتراض پیش کیا ہے یقینا یہ حدیث اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے الحمد للہ صحیح ہے۔ مصنف کا اعتراض کم علمی اور بدنیتی کی واضح دلیل ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کا نزول اس وقت ہوا جب عبداللہ ابن ابی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت میں لڑائی ہوئی اللہ تعالیٰ نے فرمایا :جب ایمان والوں کے درمیاں لڑائی ہو تو ان میں صلح کروادی جائے اب اعتراض یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا جس گروہ سے جھگڑا ہوا وہ تو کافر تھا کیونکہ عبداللہ بن ابی نے ابھی اسلام کا اظہار نہیں کیا تھا۔ دیکھئے (منۃ المنعم۔ عمدۃ القاری ) اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں ایک دوسری حدیث کو شامل کرنا ہوگا جس سے یہ بات واضح ہوجائیگی کہ عبداللہ بن ابی کا لشکر ابھی ایما ن نہیں لایا تھالیکن جب یہ مسئلہ درپیش آیا تواس وقت بعض ایمان والے بھی ان کے ساتھ موجود تھے جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں اس کی وضاحت ملتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں : ’’التسلیم فی مجلس فیہ اخلاط من المسلمین والمشرکین ‘‘
Flag Counter