Maktaba Wahhabi

27 - 98
اور یہی لوگ سب لوگوں کے لیے بہتر ہیں۔[1] پس ان کے طریقے کو لازم پکڑو۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ﴾ [الأنعام: ۱۵۳] ’’اور نہ پیروی کرو مختلف طریقوں کی کہ تم ان کے سبب اصل طریقے سے بھٹک جاؤ گے۔‘‘ 3. خشیتِ الٰہی سے وابستگی: اپنے ظاہر و باطن کو خشیتِ الٰہی سے یوں مزین کرو کہ تم شعائرِ اسلام کے محافظ معلوم ہو۔ تمھاری دعوت اور دین پر عمل سے سنتِ نبوی کا یوں اظہار ہو کہ تمھارے علم و عمل اور وضع و قطع کو دیکھ کر اﷲ یاد آئے۔ تم مردانگی، نرم خوئی اور راست روی کی صفات سے متصف ہو۔ ان جملہ صفات میں خشیتِ الٰہی کو سرمایۂ بقا کی حیثیت حاصل ہو، کیوں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ علم و آگہی کا سرچشمہ خشیتِ الٰہی ہے۔ پس ظاہر و باطن میں خشیتِ الٰہی کو لازم پکڑو، اس لیے کہ سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے ایک عالم ہی ڈرتا ہے۔ یعنی ایک عالم ہی تمام مخلوقات میں سب سے بہتر ہوتا ہے، لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ عالم اس وقت تک عالم شمار نہیں ہو سکتا جب تک عمل کرنے والا نہ ہو اور عالم اپنے علم پر کماحقہ عمل نہیں کر سکتا جب تک خشیتِ الٰہی اس کی دامن گیر نہ رہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’علم عمل کو آواز دیتا ہے، ،اگر وہ لبیک کہے تو ٹھیک، ورنہ وہ رخصت ہو جاتا ہے (یعنی علم کوچ کر جاتا ہے)۔‘‘ [2]
Flag Counter