Maktaba Wahhabi

35 - 98
3 بچگانہ حرکات و سکنات یا خود نمائی۔ لہٰذا لباس ایسا زیبِ تن کرو جو تمھیں زینت بخشے نہ کہ بد زیب کرے۔ کسی بات کرنے والے کو بات کرنے کا موقع ملے نہ کسی انگشت نمائی کرنے والے کو انگلی اٹھانے کا۔جب تمھارا لباس اور اسے زیبِ تن کرنے کا انداز اس شرف سے ہم آہنگ ہو گا جو علمِ شرعی نے تمھیں عطا کیا ہے تو یہ بات تمھاری عزت و احترام اور تمھارے علم سے نفع اندوزی کا سبب بنے گی، بلکہ تمھارے حسنِ نیت کی وجہ سے قربِ الٰہی کا بھی، کیوں کہ یہ مخلوقِ الٰہی کو حق کی طرف رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ میں قاریِ قرآن کو سفید لباس میں ملبوس دیکھوں۔[1] مطلب یہ کہ وہ لوگوں کے دلوں میں معزز و معظم ہو اور پھر لوگوں کے دلوں میں اس حق کی عظمت پیدا ہو جو وہ پیش کر رہا ہے۔ عام لوگ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: پرندوں کے جُھنڈ کی طرح ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنے میں جبلی طور پر مجبور ہوتے ہیں۔[2] لہٰذا بچگانہ لباس سے بچو۔ رہا فرنگی لباس تو اس کا کیا حکم ہے، یہ تجھ سے پوشیدہ نہیں۔ اس کا معنی ہر گز نہیں کہ تم کوئی بے ہنگم لباس زیب تن کرو، بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہوئے شرعی علامت کے طور پر ایسا لباس پہنا جائے جس سے اچھی ہیئت و حالت اور اچھی سیرت کی عکاسی ہو۔ اس کے دلائل کتبِ حدیث اور خاص طور پر حافظ ابوبکر خطیب بغدادی کی کتاب ’’الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع‘‘ (۱/۱۵۳۔۱۵۵) سے معلوم کیے جا سکتے ہیں۔
Flag Counter