Maktaba Wahhabi

51 - 98
جسے جدید اصطلاح میں اعصابی جنگ کہا جاتا ہے،[1] جس کا معنی ہے استاد کی علمی قابلیت اور بوقتِ سوال و جواب برداشت کو جانچنا، اس سے بھی اجتناب کرنا لازم ہے۔ اگر مزید استفادے کے لیے کسی دوسرے استاد سے رجوع کرنے کا ارادہ ہو تو پہلے استاد سے اجازت لے کر ایسا کیا جائے، اس سے استاد کے احترام کے جذبے کا اظہار ہوتا ہے اور استاد کے دل میں آپ کی محبت اور مہربانی و شفقت کا جذبہ جاگزیں ہو گا۔ ان آداب کے سلسلے میں جو آخری بات کہی جا سکتی ہے، جسے ہر وہ شخص جانتا ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے اپنی بابرکت توفیق سے نوازا ہے، یہ ہے کہ استاد کے حقِ استادی کے پیشِ نظر اسے دینی باپ سمجھا جائے یا دنیا کے بعض قوانین و رسوم کے مطابق تعلیم و تعلّم کے اس ابتدائی سلسلے کو ادبی رضاعت کے نام سے موسوم کیا جائے۔[2] بعض علما کا استاد کو دینی باپ کہنا ہے تو ٹھیک مگر نہ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ آپ کے علم میں رہے کہ جس قدر استاد کا ادب و احترام ملحوظِ خاطر رہے گا، اسی قدر کامیابی و کامرانی آپ کے قدم چومے گی، جب کہ استاد کی توہین ناکامی و نامرادی کا پیش خیمہ ہے۔ ایک انتہائی ضروری تنبیہ: اﷲ تعالیٰ آپ کو اہلِ عجم، اہلِ طریقت اور پس ماندہ اہلِ بدعت کے ہاں رائج اظہارِ عقیدت کے غیر شرعی آداب سے محفوظ رکھے، مثلاً: مرشد کے ہاتھوں پر زبان پھیرنا، اس کے شانوں کو بوسہ دینا، سلام کے وقت مرشد کے دائیں ہاتھ کو اپنے دائیں بائیں دونوں ہاتھوں سے پکڑنا، جس
Flag Counter