Maktaba Wahhabi

60 - 98
یمن میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا: کوئی مسلمان اس کے ساتھ نہ بیٹھے۔[1] اس کے متعلق ایک قول یہ ہے کہ وہ خارجیوں کے سے خیالات رکھتا تھا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الأذکار‘‘ میں ایک عنوان قائم کیا ہے: ’’التبرّي من أھل البدع والمعاصي‘‘ جس کے تحت انھوں نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ذکر کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’الصالقۃ‘‘ (واویلا کرنے والی)، ’’الحالقۃ‘‘ (سر منڈوانے والی، یعنی صدمے کے باعث ایسا کرنے والی) اور ’’الشاقۃ‘‘ (گریبان چاک کرنے والی) سے بے تعلقی ظاہر کی ہے۔[2] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے قدریہ (تقدیر کے منکرین) سے براء ت کا اظہار کیا ہے (مسلم)۔ [3] شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی تصنیفات میں متعدد مقامات پر لکھا ہے کہ بدعتی سے ترکِ تعلقات کی بنیاد حصولِ مصالح اور دفعِ مفاسد کے اصول پر قائم ہے، لہٰذا اس کے جواز و عدمِ جواز کو اسی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے گا۔[4] اہلِ بدعت اُس وقت بڑھتے اور نمایاں ہوتے ہیں، جب علم کم ہو جائے اور جہالت کا چلن عام ہو جائے۔ اس سلسلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس قسم کے لوگ اُس وقت بہ کثرت ظاہر ہوتے ہیں جب جاہلیت اور اہلِ جہالت کا دور دورہ ہو اور وہاں علمِ نبوت کو جاننے اور اس کی پیروی
Flag Counter