Maktaba Wahhabi

117 - 259
اس کا مطلب یہی سمجھا کہ جبل طور وغیرہ انبیاء علیہم السلام کے مقامات بھی اس عام حکم میں داخل ہیں اور یہ کہ ان کا سفر اختیار کرنا روا نہیں، جس طرح مذکورہ بالا تین مسجدوں کے سوا کسی مسجد کے لیے سفر کرنا روا نہیں۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ سفر جائز ہے۔ یہ قول ابو حامد غزالی ،ابو الحسن حرانی، شیخ ابومحمد مقدسی اور بعض علمائے متاخرین کا ہے اور میرے علم میں متقدمین میں سے کسی سے منقول نہیں۔ ان لوگوں کے نزدیک یہ سفر والا حکم عام نہیں ہے اور یہ سفر زیارت قبور والا اس میں داخل نہیں ہوتا ان کی دلیل یہ ہے کہ اس میں وہ سفر بھی داخل نہیں ہیں جو ان مقامات کے لیے اختیار کیے جائیں جہاں آدمی کے والدین، علماء، مشائخ، احباب ہوں یا جہاں مباح دنیاوی معاملات تعلق رکھتے ہوں۔ البتہ اس بارے میں سب متفق ہیں کہ بدعت کے جو کام قبروں پر کیے جاتے ہیں، بالکل ناجائز ہیں۔ قبروں کے ساتھ مساجد قبروں کے پاس نماز پڑھنا، قبروں کو مسجدیں قرار دینا، ان پر مسجدیں تعمیر کرنا قطعاً ناجائز ہے کیونکہ متواتر نصوص سے ان کی ممانعت اور ان کے متعلق سخت احکام ثابت ہیں۔ قبروں پر مساجد کی تعمیر سے تمام علماء نے منع کیا ہے۔ حنبلی، مالکی اور شافعی علماء نے تصریح کی ہے کہ یہ فعل حرام ہے لیکن بعض علماء نے اسے مکروہ کہا ہے۔ معلوم نہیں کہ ان کی مراد مکروہ تحریمی ہے یاتنزیہی۔ بغیر شک وشبہ کے کہا جاسکتا ہے کہ وہ حرام ہے کیونکہ صحیح مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ اپنی وفات سے پانچ دن پہلے فرمارہے تھے: ’’اے لوگو! تم سے پہلے لوگ اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مساجد قرار دے لیتے تھے۔ خبردار! تم قبروں کو مساجد قرار نہ دینا، میں تمھیں ایساکرنے سے منع کرتا ہوں۔‘‘[1]
Flag Counter