Maktaba Wahhabi

47 - 259
وقت فرمایا تھا جب کہ آپ نے ان کے ساتھ لمبا قیام کیا حتیٰ کہ سحری کے رہ جانے کا خدشہ لاحق ہوگیا۔ اصحابِ سنن نے یہ حدیث روایت کی ہے اور ائمہ کرام میں سے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ تراویح کی نماز تنہا پڑھنے سے جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے۔ ظاہر ہے اس حدیث میں امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے اور اس طرح وہ سنت مطلقہ نہیں، مؤکدہ ثابت ہوتی ہے۔ پھر صحابہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھتے تھے اور آپ ان پر اعتراض نہ کرتے تھے۔ آپ کا معترض نہ ہونا اور اسے جاری رہنے دینا، خود سنت ہونے کا ثبوت ہے۔ رہ گیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’یہ بہت اچھی بدعت ہے‘‘ تو ان کے اس قول سے مخالفوں کے لیے حجت پکڑنا درست نہیں۔ کیونکہ دوسرے موقعوں پر اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کسی ایسے قول سے کوئی حکم ثابت کیا جائے جس پر کسی نے ان کی مخالفت نہ کی ہو تو یہی مخالف کہہ دیتے ہیں کہ صحابی کا قول حجت نہیں۔ اگر ان کا یہ قانون صحیح ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاقول ان لوگوں کے لیے کیونکر حجت ہوسکتا ہے؟ پھر جو لوگ صحابی کے قول کو حجت مانتے ہیں، وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے قولِ صحابی سے حجت نہیں لائی جاسکتی جو حدیث کے خلاف ہو۔ بہر حال دونوں قسم کے لوگ جو صحابی کا قول حجت مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے، ان سب کے نزدیک صحابی کے قول کو حدیث کے مد مقابل کھڑا کرنا روا نہیں۔ بلاشبہ صحابی کا وہ قول جس پر کسی نے اعتراض نہ کیا ہو، اس سے حدیث کے عموم کی تخصیص (ایک روایت کی رو سے) جائز ہے۔ اس اصل اور ضابطے کی بنا پر صرف اس قدر ثابت ہو سکتا ہے کہ کسی ایک خاص بدعت کا استحسان ثابت ہوجائے لیکن باقی بدعات پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔
Flag Counter