Maktaba Wahhabi

82 - 259
ہوسکتا ہے لیکن جب ثابت ہوجائے کہ جھوٹی ہے تو پھر کسی حال میں بھی اس کی روایت جائز نہیں، الّا یہ کہ ساتھ ہی اس کی حقیقت بھی بیان کردی جائے۔ کیونکہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو کوئی مجھ سے حدیث روایت کرتا ہے اور وہ جان چکا ہوتا ہے کہ وہ جھوٹی ہے تو وہ خود بھی جھوٹ بولنے والوں میں سے ایک ہے۔‘‘[1] شعبان کی پندرہویں رات اسی قبیل سے شعبان کی پندرہویں رات ہے۔ متعدد احادیث وآثار سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رات بہت فضیلت والی ہے۔ (مگر وہ ساری روایتیں ضعیف اور متکلم فیہ ہیں۔) سلف صالحین رحمۃ اللہ علیہم میں سے بعض لوگ اسے نماز کے ساتھ مخصوص کرتے تھے جب کہ بہت سے علمائے سلف نے اس کی فضیلت سے انکار کیا ہے۔ بہر حال بہت سے اہلِ علم کا رجحان انھی ضعیف روایات کی بنیاد پر اس طرف ہے کہ وہ فضیلت رکھتی ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی خیال ہے۔ البتہ اس دن کا خاص روزہ رکھنا شریعت میں کوئی اصل نہیں رکھتا بلکہ اکیلے اس روزے کو مکروہ کہا جائے گا۔ اسی طرح اس دن کو عید بنانا، اس میں طرح طرح کے کھانے پکانا اور آرائش کرنا بھی بدعت ہے۔ اسی طرح مسجدوں میں اس رات جمع ہونا، ایک خاص قسم کی نماز پڑھنا بھی بدعت ہے جسے ’’صلاۃ ألفیۃ‘‘ کہتے ہیں۔ نفل نماز کے لیے وقت، تعداد اور مقدار کی تعیین کے ساتھ اجتماع کرنا مکروہ ہے اور شرعًا روا نہیں۔ تمام مسلمان مردوں کے لیے نماز جنازہ اگر ہر رات کی علیحدہ علیحدہ فضیلت بیان کر کے اس کو کسی نماز کے ساتھ خاص کرنا جائز ہو
Flag Counter