Maktaba Wahhabi

87 - 259
کے فعل میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن لوگوں نے اس میں بہت غلو اور زیادتی کردی ہے۔‘‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد اس طرح کی کراہت بہت سے علمائے سلف رحمۃ اللہ علیہم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی منقول ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے جب ذکر وعبادت کے لیے ایک جگہ مقرر کرلی اور وہاں جمع ہونے لگے تو ایک دن حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے آکر انھیں سخت تنبیہ کی۔ فرمانے لگے: ’’اے لوگو! کیا تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے اصحاب ( رضی اللہ عنہم ) سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو یاتم گمراہی کی راہ پر جارہے ہو؟‘‘[1] اور اصل اس کی یہ ہے کہ وہ مشروع عبادتیں جو وقت کی پابندی کے ساتھ ادا ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے مقرر کردی ہیں اور وہ اتنی ہیں کہ بندوں کے لیے کافی ہیں۔ پس جب کبھی وقت کی تعیین کے ساتھ اجتماع ایجاد کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے مقرر کیے ہوئے اجتماعات کا مدمقابل بن جاتا ہے۔ اس فعل میں مضرتیں اور نقصانات ہیں، ان میں سے بعض کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ لیکن اگر تنہا آدمی کوئی خاص عمل کرتا ہے یا کوئی جماعت کبھی کبھی کوئی بات کرلیتی ہے تو اس کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ ایسی صورت میں وہ فعل سنت وشریعت نہیں بن سکتا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک یہی وجہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے تنہا رجب کے مہینے کے روزے رکھنے کو ناپسند کیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ درخت کٹوا ڈالا تھا جسے لوگ بیعت رضوان والا درخت سمجھنے لگے تھے اور اس کی زیارت کو مسجد حرام اور مسجد نبوی کی زیارت کی طرح آنے لگے
Flag Counter