Maktaba Wahhabi

125 - 259
نہیں ہوتی۔ بہت سے لوگ تو قبروں کو سجدہ بھی کرتے ہیں اور قبروں کے پاس نماز پڑھنے اور دعا کرنے میں اتنی برکت سمجھتے ہیں جو شدِّر حال یعنی سفر والی تینوں مسجدوں ، مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی میں بھی نہیں سمجھتے۔ یہی وہ خرابی ہے، یعنی شرک والی خرابی، خواہ زیادہ مقدار میں ہو یا کم مقدار میں، جس کی جڑ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاٹ دی ہے، حتیٰ کہ مقبرے میں سرے سے نماز پڑھنے ہی کی ممانعت کردی ہے، خواہ نماز پڑھنے والا اس خاص جگہ نماز پڑھنے کی برکت کا قائل نہ بھی ہو۔ یہ ممانعت اسی قسم کی ہے،جس قسم کی طلوع وغروب اور سورج کے نصف النہار میں ہونے کے وقت نماز کی ممانعت ہے کیونکہ انھی اوقات میں مشرکین سورج کی پرستش کیا کرتے تھے اور یہ مخالفت محض اس اصل کی بنا پر ہے کہ شرک کے ادنیٰ ذریعہ اور سبب کا بھی سدباب ہو جائے۔ جب آدمی جان بوجھ کر کسی نبی یا بزرگ کی قبر کے پاس نماز پڑھنے میں زیادہ خیر و برکت سمجھتا ہے تو وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صاف طور پر لڑائی کرتا ہے اور ایک ایسا دین ایجاد کرتا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی کیونکہ تمام مسلمانوں کو صاف وصریح طور پر معلوم ہوچکا ہے کہ قبر کے پاس نماز پڑھنا دین محمدی میں ثابت نہیں ہے، خواہ کسی کی بھی قبر ہو اور اس نماز میں ہر گز کوئی خوبی نہیں ہے، بلکہ سراسر بُرائی ہے۔ افراط و تفریط ممکن ہے کہ کسی خاص جگہ فرشتوں اور رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہو، اور اس جگہ کو بزرگی اور شرف بھی حاصل ہو، لیکن وہاں پر بھی افراط وتفریط کے درمیان ہی دین اسلام ہے، افراط میں دین ہے نہ تفریط میں۔ نصارٰی نے انبیاء علیہم السلام کی تعظیم میں اس قدر افراط اور غلو سے کام لیا کہ ان کی پرستش کرنے لگے اور یہود نے اس قدر تفریط اختیار کی کہ انھیں قتل کرنے لگے، لیکن
Flag Counter