Maktaba Wahhabi

96 - 259
’’ذاتِ انواط‘‘ مقرر کردیجیے جیسا کہ ان لوگوں کا ذاتِ انواط ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’اللہ اکبر! تم نے وہی بات کہی ہے جو یہودیوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ﴿ اِجْعَل لَّنَآ إِلٰہًا کَمَا لَہُمَْ اٰلِہَۃٌ﴾ ’’یعنی اے موسیٰ ( علیہ السلام )! ہمارے لیے بھی ایک معبود مقرر کردے جس طرح ان کے لیے معبود ہیں۔‘‘ [1]یہ گمراہی کے راستے ہیں اور تم پہلے گزر جانے والوں کی گمراہی کے راستوں کی پیروی کرو گے۔[2] ملاحظہ کیجیے کہ نبی ٔکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات محض اس وجہ سے ناپسند فرمائی کہ یہ مشرکین سے مشابہت رکھتی تھی حالانکہ چند ایک مسلمانوں نے اتنی سی بات چاہی تھی کہ مشرکین کی طرح ان کے لیے بھی ایک درخت خاص کردیا جائے جہاں وہ ہتھیار لٹکایا کریں، مگر آپ نے اسے بھی منظور نہ کیا۔ ظاہر ہے جس بات میں مشرکین کی پوری مشابہت ہے یا جو شرک ہی کی قسم ہے، تو اس کا حکم کیاہوگا؟ پس جو کوئی کسی خاص جگہ اس عقیدے سے جاتا ہے کہ وہاں جانے سے ثواب حاصل ہوگا، حالانکہ شریعت نے وہاں جانے میں کوئی ثواب تسلیم نہیں کیا تو اس کا یہ فعل بدعت و منکر ہے، اس کے بھی درجے ہیں۔ بعض زیادہ سخت برائی کے درجے ہیں اور بعض کم برائی کے، مگر یہ سب برائی ہی کی باتیں ہیں، چاہے وہ جگہ کوئی پہاڑ ہو یا غار، دریا ہو یا درخت، کچھ بھی ہو، سب کا حکم ایک ہی ہے۔ روشنی کرنا اور منت ماننا آدمی خواہ کسی بھی عمل کی نیت سے وہاں جاتا ہے، عبادت کے لیے، نماز کے لیے، دعا کے
Flag Counter