Maktaba Wahhabi

78 - 259
رکھنا، زیادہ سخت منکر کو رد کرنا اور زیادہ قوی دلیل کو ترجیح دینا ہی علمائے اسلام کا خاصہ ہے۔ اعمال کے تین مر اتب (1)۔ ایسا عمل صالح جو ہر لحاظ سے مشروع ہو اور جس میں ذرا برابر بھی کراہت نہیں۔ (2)۔ ایسا عمل جو بعض اعتبار سے یا اکثر اعتبار سے صالح ہو یعنی نیک نیتی کی وجہ سے یا اس کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کوئی مشروع پہلو بھی رکھنے کی وجہ سے۔ (3)۔ وہ عمل جس میں ہر گز کوئی بھلائی نہیں، اس لیے کہ اس سے عمل صالح کا ترک لازم آتا ہے یا اس لیے کہ وہ بذاتِ خود عملِ فاسد ہے۔ پہلا مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ظاہراً وباطناً، قولاً وفعلاً تمام علمی اور عملی معاملات میں عمل کرنے کا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی معرفت وتعلیم واجب ہے، اسی کا حکم کرنا چاہیے اور اسی پر وجوب واستحباب کے لحاظ سے عمل کرنا چاہیے۔پہلے پہل مہاجرین اور انصار رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد تابعین رحمۃ اللہ علیہم کے اعمال اس سلسلے میں نمونہ ہوسکتے ہیں۔ دوسرا مرتبہ متاخرین کے اعمال میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ علم وعبادت سے نسبت رکھنے والوں اور عوام الناس میں سے اکثر کے اعمال اسی مرتبے میں داخل ہیں، لیکن یہ لوگ ان لوگوں سے بہتر ہیں جو سرے سے عمل صالح کرتے ہی نہیں، یا جن کے اعمال محرمات کی جنس سے ہیں مثلاً کفر، جھوٹ، خیانت اور جہل وغیرہ۔ پس جو لوگ ایسی عبادتیں کرتے ہیں جو اپنے اندر کراہت رکھتی ہیں مثلاً بغیر افطار کے مسلسل روزے رکھنا، راہبوں کی طرح فطری خواہشیں بالکل ترک کردینا، یا ایسی راتیں عبادت میں گزارنا جو شرعاً کوئی خصوصیت نہیں رکھتیں جیسے رجب کی پہلی رات وغیرہ، تو ان لوگوں کا حال اس آدمی سے بہتر سمجھا جاسکتاہے جو سرے سے کوئی عمل کرتا ہی نہیں۔ ان مکروہ
Flag Counter