Maktaba Wahhabi

77 - 259
لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ آدمی اس لیے پیدا کیے گئے ہیں کہ عمل کریں، نہ کہ عمل ترک کریں۔ اگر کسی عمل کو ترک کرنے پر زور دیا جاتا ہے تو صرف اس لیے کہ دوسرے عمل کے لیے جگہ خالی ہو۔ چونکہ عمل فاسد عمل صالح کا دروازہ بند کردیتے ہیں، اس لیے ان کا ترک ضروری ٹھہرایا جاتا ہے تاکہ عمل کے لیے گنجائش نکلے اور وہ محفوظ رہے۔ پس ولادتِ نبوی کے وقت کی تعظیم اور اسے عید بنانے میں بعض لوگوں کو ثوابِ عظیم حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ ثواب ان کی نیک نیتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی وجہ سے ہوگا لیکن جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، بعض لوگوں کے ایسے اعمال بھی قبول ہوجاتے ہیں جو مومن صادق سے قبول نہیں ہوسکتے۔ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سے کسی حاکم کے متعلق کہا گیا کہ اس نے قرآن پر ایک ہزار دینار خرچ کیے ہیں۔ آپ نے جواب دیا: ’’اسے کچھ نہ کہو یہ افضل اور سب سے بہتر چیز ہے جس پر اس نے سونا خرچ کیا ہے۔‘‘ حالانکہ امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں قرآن کریم کی آرائش مکروہ ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے قول کی توجیہ یہ ہے کہ یہ عمل اگر چہ فساد سے خالی نہیں تاہم اپنے اندر ایک مصلحت بھی رکھتا ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ لوگ ایسی چیزوں پر اپنی دولت خرچ نہ کریں تو ایسے کاموں پر خرچ کرنے لگیں گے جو بہت زیادہ بُرے ہیں اور اپنے اندر کوئی بھلائی نہیں رکھتے۔ مثلاً اگر یہ شخص قرآن کی تزیین کے بجائے یہی روپیہ فسق وفجور، لہوولعب، اشعار یا فلسفہ یونان کی کتابوں پر خرچ کرتا تو ظاہر ہے اور بھی زیادہ بُرا ہوتا۔ لہٰذا اے اصلاح کے خواہاں! دین کی حقیقت سمجھیے اور افعال کو دیکھیے کہ ان میں شرعی مصالح کتنے ہیں اور مفاسد کتنے ہیں تاکہ آپ کو معروف کے مراتب اور منکر کے مراتب کی معرفت حاصل ہو اور تصادم کی حالت میں آپ اہم کو غیر اہم پر مقدم رکھ سکیں۔ انبیاء علیہم السلام کی لائی ہوئی ہدایت پر عمل کی یہی حقیقت ہے۔ تصادم کی حالت میں زیادہ اہم معروف کو مقدم
Flag Counter