Maktaba Wahhabi

48 - 259
پھر ہم کہتے ہیں کہ اس روایت میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نمازِ تراویح کو’’بدعت حسنہ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے لیکن یاد رکھیے یہ تعبیر لغوی ہے نہ کہ شرعی، اور معلوم ہے کہ لغت میں بدعت کا اطلاق تمام ایسے افعال پر ہوتا ہے جو ابتدا اور شروع میں کیے جائیں اور جن کی کوئی سابق مثال موجود نہ ہو، لیکن شریعت کی اصطلاح میں بدعت وہ فعل ہے جس کے جواز پر کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔ لہٰذا اگر کسی فعل کے استحباب یا ایجاب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کوئی نص آپ کی وفات کے بعد دلالت کرے تو اس پر عمل کیاجائے گا۔ جیسا کہ وہ کتاب الصدقہ (جس میں زکاۃ کے تفصیلی احکام تھے) جسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جاری کیا تھا[1] تو ایسے فعل کو لغت کے اعتبار سے بدعت کہنا صحیح ہوگا کیونکہ اس کی کوئی سابق مثال موجود نہیں، حتیٰ کہ خود اسلام کو لغت کے لحاظ سے بدعت ومحدث کہا جاتا ہے جیسا کہ قریش کے سفیروں نے نجاشی کے دربار میں مہاجرین کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ یہ لوگ اپنے بزرگوں کے دین سے برگشتہ ہو گئے ہیں خود بادشاہ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں، بلکہ ایک محدث (یعنی نو ایجاد) دین کو مانتے ہیں جسے کوئی نہیں جانتا۔‘‘ [2] جس فعل پرکتاب وسنت دلالت کریں وہ لغت کے اعتبار سے اگرچہ بدعت شمار ہوسکتا ہے،لیکن شرعی لحاظ سے وہ بدعت نہیں قرار پاسکتا، یہ اس لیے کہ لغت میں لفظ بدعت کے معنی شریعت میں اس کے معنی سے زیادہ عام ہیں۔ ظاہر ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘[3]ہر اس فعل کی مذمت مقصود نہیں ہے جو پہلے پہل کیا جائے، کیونکہ خود اسلام اور انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے تمام دین اپنی جگہ پر نئے اور بغیر کسی سابق مثال کے تھے (چنانچہ
Flag Counter