Maktaba Wahhabi

49 - 259
اگر آپ کے فرمان سے لغوی بدعت مقصود ہو پھر تو تمام ادیان اور اسلام بھی بدعت ہوگا، اس لیے اس قول سے لغوی بدعت مراد نہیں) بلکہ اس حدیث سے مقصود (شرعی بدعت اور) وہ اعمال ہیں، جنھیں شارع علیہ السلام نے مشروع قرار نہیں دیا۔ نمازِ تراویح کی حقیقت یہ ہے کہ آپ کے زمانے میں اسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم باجماعت بھی ادا کرتے تھے اور علیحدہ علیحدہ بھی پڑھتے تھے۔ آپ نے ان سے تیسری یا چوتھی رات میں جب وہ جمع تھے، فرمایا: ’’میں صرف اس خیال سے نماز کے لیے باہر نہیں نکلا کہ کہیں وہ تم پر فرض نہ ہوجائے۔[1] اور فرمایا: اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ فرض کے علاوہ سب سے افضل نماز وہی ہے جو گھر میں پڑھی جائے۔‘‘ [2] غور کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے باہر نہ آنے کی وجہ یہ قرار دی کہ مبادا یہ نماز فرض ہو جائے۔ اس سے ثابت ہوا کہ باہر آنے کا مقتضی اور مقصد ’’یعنی نماز‘‘ اپنی جگہ پر بدستور موجود اور قائم ہے اور اگر فرض ہوجانے کا خوف نہ ہوتا تو آپ ضرور تشریف لاتے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں لوگوں کو باجماعت تراویح پڑھنے کے لیے جمع کیا اور مسجد میں رو شنی کا اہتمام کیا۔ نماز کی یہ خاص ہیئت یعنی مسجد میں ایک امام کے پیچھے کھڑا ہونا اور روشنی کرنا ایک ایسا فعل تھا، جسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پہلے نہیں کیا کرتے تھے، لہٰذا اسے بدعت کہا گیا کیونکہ لغت میں اس کا یہی نام ہوسکتا ہے، اگرچہ شریعت میں وہ بدعت نہیں ہے۔ اور شریعت میں یہ نماز کیونکر بدعت ہوسکتی ہے جبکہ سنت سے اس کا عمل صالح ہونا ثابت ہے۔ اسے تو
Flag Counter