Maktaba Wahhabi

64 - 90
1۔ میں نے ابو عبد اللہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: (ہُوَ مُنْکَرٌ،لَمْ یُقْضَ فِیْہِ شَيْئٌ) ’’ یہ[طنبورہ و آلات موسیقی]منکر ہیں اور انکے توڑنے پر کسی تاوان کا فیصلہ نہیں دیا جائے گا۔‘‘ [1] 2۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک اَور اثر خلال نے یوں روایت کیا ہے کہ جعفر بن محمد کہتے ہیں: (سَأَلْتُ اَبَا عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ کَسْرِ الطَّنْبُوْرِ وَ الْعُوْدِ وَ الطَّبْلِ؟فَلَمْ یَرَ عَلَیْہِ شَیْئاً) ’’ میں نے ابو عبداللہ(امام احمد رحمہ اللہ)سے طنبورے،عُوداورطبلے توڑنے کے بارے میں تاوان کے سلسلہ میں پوچھا،توانھوں نے اس پر کوئی تاوان یا عوضانہ نہیں بتایا۔‘‘ جعفر کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:’’ دفوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟‘‘ تو امام احمد بن حنبل نے ان سے تعرّض نہ کرنے کی رائے دیتے ہوئے فرمایا: (قَدْ رُوِیَ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِي الْعُرْسِ)[2] ’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی بیاہ میں ان کا جواز ملتا ہے۔‘‘ یہ امام صاحب کی فقاہت،فہم و فراست اور باریک بینی کی دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں عورتوں نے کسی شادی کے موقع پر دَف بجائی تھی لہٰذا انہوں نے کہا کہ َدفوں کو نہ توڑا جائے۔بشرطیکہ وہ صرف عیدوشادی پر اور گانے کے بغیر بجائی جائیں۔باقی جتنے بھی ساز ہیں انھیں اگر کوئی توڑ دے تو کوئی ضمانت و گارنٹی اور معاوضہ نہیں ہے۔ 3۔ البتہ اگر دوسرے مواقع پر بجائی جانے والی دف ہو تو اسے توڑ دینے میں امام احمد رحمہ اللہ بھی کوئی
Flag Counter