Maktaba Wahhabi

36 - 241
ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے اور لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کرتے۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کا امامت کے لیے کیوں انتخاب کیا گیا۔ کیا اس لیے کہ وہ آدمیوں میں سب سے پہلے ایمان لائے تھے یا اس لیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غار تھے یا پھر اس لیے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی اور آپ کے پیارے تھے؟ ممکن ہے کہ یہ تینوں اسباب بھی ہوں، تاہم بنیادی اسباب یہ نہیں تھے۔ دراصل وفات نبوی کے بعد امت کو جس مشکل مرحلے سے گزرنا اور جس گھمبیر مسئلے کا شکار ہونا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا بخوبی اندازہ تھا۔ آپ بلاشبہ بڑے مردم شناس تھے۔ آپ نے نگاہِ بصیرت سے دیکھ لیا تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی اس اہم ذمے داری کو پورا کرسکتے ہیں۔ اس کی تائید حضرت مطعم بن عدی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ایک خاتون کسی سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئی۔ آپ نے اُس سے فرمایا: ’’دوبارہ آنا۔‘‘ اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر آپ سے ملاقات نہ ہوسکے تو (مطلب یہ کہ آپ وفات پا جائیں تو) کس سے ملاقات کروں۔ فرمایا: ’’تو ابوبکر سے ملنا۔‘‘ [1] معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امور ریاست کی ذمے داری سونپا کرتے اور انھیں اس کا اہل سمجھتے تھے۔ مسلمانوں کی کثیر تعداد کو بھی اُن کے اِس مقام و مرتبے کا احساس تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اِس امر کے متعلق کیوں فکر مند تھیں۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ کیوں عرض کیا اور بعد میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے بھی کہلوایا کہ ابوبکر( رضی اللہ عنہ ) زود رنج آدمی ہیں۔ وہ آپ
Flag Counter