Maktaba Wahhabi

107 - 280
ہیں ۔اس انصاری کی بیوی نے انہیں گھر پر بٹھایا، انصاری خود گھر پر نہیں تھا۔ جب وہ حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر بڑا خوش ہوا۔ اس انصاری کو ابو ہیثم بن النہیان کہا جاتا تھا، اس کا نام مالک تھا۔ اس حدیث میں کئی ایک فوائد ہیں ۔ان میں سے : ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور کبار صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کا بیان ہے۔آپ کے لیے دنیا کس قدر معدوم تھی۔اور آپ بھوک و تنگی سے کس قدر آزمائے گئے۔ اور بعض اوقات زندگی کتنی تنگ ہوجاتی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تنگی فتوحات حاصل ہونے سے پہلے تھی۔ یہ ایک بے بنیاد سی بات ہے۔ اس لیے کہ اس حدیث کے راوی جناب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سن چھ ہجری میں فتح خیبر کے بعد اسلام قبول کیا ہے۔ (اس پر صحیح تحقیق ’’الدفاع عن ابی ہریرۃ‘‘ میں ہے۔) اگر یہ کہا جائے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ قصہ خود ابو ہریرہ کے سامنے پیش آیا ہو، بلکہ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے دوسرے صحابہ کرام سے سناہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ احتمال ظاہر روایت کے خلاف ہے ؛ اور اس طرف دھیان دینے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ بلکہ حق بات اس کے برعکس ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت ہمیشہ کے لیے (دنیاوی معاملہ میں ) ایسی ہی رہی ہے۔ کبھی آپ کے پاس کچھ تھوڑا بہت میسر ہوتا اور کبھی بالکل کچھ بھی نہ ہوتا۔جیسا کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہی ثابت ہے کہ: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے گئے، اور آپ نے کبھی ’’جو ‘‘ کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے ہیں ، کبھی تین دن تک مسلسل کھانا نہیں کھایا یہاں تک کہ آپ اس دنیا سے چلے گئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی درع کچھ قرض کے بدلے ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی دیگر قصے بڑے معروف ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter