Maktaba Wahhabi

122 - 280
بھی احتمال ہے کہ اس کا معنی یہ ہو کہ[بِسْمِ اللّٰهِ کے بغیر] کامل وضو نہیں ہوتا۔ لیکن میں ایسی تاویلوں پر راضی نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ ایسی دور کی تاویل ہے جس کااصل لفظ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘ میں کہتا ہوں : ’’ بے شک اس حدیث میں دلیل ہے کہ بسم اللہ کہنا یا تو وضو کا رکن ہے، یا شرط۔اس لیے کہ حدیث کے ظاہری الفاظ’’ اس کا کوئی وضو نہیں ہوتا‘‘ دلالت کرتے ہیں کہ اس کا وضو ء صحیح نہیں ہوتا، یا سرے سے ہوتا ہی نہیں ۔ اس لیے کہ جب کسی چیز کی نفی کی جاتی ہے تو اصل میں اس کی حقیقت کی نفی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے المرقاۃ میں لکھا ہے کہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :’’ یہ صیغہ حقیقت میں کسی چیز کی نفی کے لیے آتا ہے۔ اور مجازاً کسی چیز کے درست نہ ہونے کی وجہ سے اس کے معتبر ہونے کی نفی کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ جیساکہ حدیث شریف میں آتا ہے: (( لا صلاۃ لجار المسجد إلا في المسجد))…’’ مسجد کے پڑوسی کی کوئی نماز نہیں ہوتی،سوائے مسجد کے۔‘‘اس حدیث میں نفی کمال پر محمول ہے، اہل ظاہر کے برعکس (جیسا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل نماز کی نفی ہے۔) اس لیے کہ حضرت عمر اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں : ’’جس انسان نے وضو کیا اور بِسْمِ اللّٰهِ کہی، اس کے لیے یہ وضو پورے بدن کی طہارت ہے۔ اور جس نے وضو کیا اور بِسْمِ اللّٰهِ نہ کہی؛ اس کے لیے صرف ان اعضاء کی طہارت ہے جنہیں اس نے دھویا ہے۔‘‘ اس پیرائے میں طہارت سے مراد گناہوں سے پاکیزگی و طہارت ہے۔ اس لیے کہ بے وضو ہونا ایسی چیز ہے جس کے حصے نہیں کیے جاسکتے۔ [1] اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ کا بیان ہوا ہے۔ جب پانی کم پڑگیا، اور صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کے لیے پانی کی شکایت کی تو آپ نے
Flag Counter