Maktaba Wahhabi

173 - 280
علامہ توربشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ (( ومِلءَ ما شِئتَ ))میں انسانی کوششیں بجالانے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی حمد کا حق ادا کرنے سے عاجز آجانے کی طرف اشارہ ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد تو زمین و آسمان کے برابر ہے۔ یہی سابقین کی پہنچکی انتہاء ہے۔ پھر اس سے آگے نکلتے ہوئے اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے سپرد کردیا۔اس لیے کہ اس کے بعد حمد کی کوئی انتہاء ہی نہیں ۔اوریہ رتبہ جس پر مخلوق میں سے کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکا، (یہاں پر پہنچنے والا) اس بات کا حقدار ہے کہ اس کا نام ’’احمد ‘‘(بہت زیادہ حمد وثناء بیان کرنے والا) رکھا جائے۔ فوائدِحدیث : ٭ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال اس مجاہد کی طرح تھے جو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرتا ہے۔اس لیے کہ یہ پر مشقت کام صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے حصول کے لیے تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اور صحابہ کرام کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا﴾ (الفتح :۲۹) ’’ آپ انہیں دیکھیں گے رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالی کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ۔‘‘ ٭ رات کو تہجد کی نماز کے لیے جماعت کرنے کے جواز کا بیان۔ مگر ایسا ہمیشہ کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ ایسا کبھی کبھار رمضان کے علاوہ باقی ایام میں ہونا چاہیے۔ جب کہ رمضان میں سنت یہ ہے کہ انسان جماعت کے ساتھ تراویح کی نماز ادا کرے۔ ٭ تہجد کی نماز میں انسان کو چاہیے کہ جب کسی رحمت کی آیت سے گزرے تو وہاں رک کر اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت کا سوال کرے۔مثال کے طور پر کسی آیت میں جنت کا ذکر
Flag Counter