Maktaba Wahhabi

184 - 280
ہوں ۔ یہ سابقہ تفصیل کے بعد اجمال پیش کیا جارہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی تمام صفات جمال کے ساتھ صفات جلال سے پناہ مانگی جارہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو صفات کو چھوڑ کر صرف ذات سے پناہ مانگنا کوئی معنی نہ رکھتا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ مشاہدہ حق اور غائب عن خلق کے باب سے ہے۔ یہ محض ایسی معرفت ہے جس کا احاطہ بندے نہیں کرسکتے۔ لا أُحْصِي ثَناءً عَلَيْكَ:…’’ اور میں تیری حمد وثناکا حق ادا نہیں کر سکتا ۔‘‘ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’لفظ ’احصاء‘ [شمارکرنا]میں اصل کنکریوں پر شمار کرناہے۔اور اس سے مراد یہ ہے کہ میری اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تیری ایسی حمد وثنا بیان کروں جیسے تو اس کا مستحق ہے۔ اور یہ بھی کیا گیا ہے کہ: ’’ کوئی بھی انسان تیری نعمتوں پر تیری حمد و ثناء بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔‘‘ اس جملہ میں حقوق اللہ کے ادا کرنے سے بشریت کے عاجز ہونے کا بیان ہے۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ [اس کا معنی ہے] میں اس کی طاقت نہیں رکھتا، اور نہ ہی اس کی غایت کو پہنچ سکتا ہوں ؛ اورنہ ہی اس کی معرفت کا احاطہ کرسکتا ہوں ۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث شفاعت میں ارشاد فرمایا ہے : ’’ میں اس وقت اللہ تعالیٰ کی ایسی تعریف بیان کروں گا جس کو بیان کرنے کی طاقت اب نہیں رکھتا۔‘‘ أنْتَ كما أثْنَيْتَ على نَفْسِكَ: …’’ جیسی تو نے خود اپنی حمد وثنا بیان کی ہے۔‘‘ دوسری حدیث: …دوسری حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں یوں دعا کیا کرتے تھے: (( اللَّهُمَّ اغْفِرْ لي ذَنْبِي كُلَّهُ دِقَّهُ، وجِلَّهُ، وأَوَّلَهُ وآخِرَهُ وعَلانِيَتَهُ وسِرَّهُ )) ’’ یا اللہ!میرے تمام گناہ چھوٹے اور بڑے پہلے اور پچھلے ظاہر اور پوشیدہ ، معاف فرما دے ‘‘
Flag Counter