Maktaba Wahhabi

40 - 280
((وَأَعُوذُ بكَ مِن شَرِّ ما في هذِه اللَّيْلَةِ وَشَرِّ ما بَعْدَها )) ’’میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس رات کی برائی سے اور جوکچھ اس رات کے بعدہے اس کی برائی سے ۔‘‘ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ: …(اے اللہ میں سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ) اس سے مقصود یہ ہے کہ انسان طاقت و استطاعت ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے کام نہ کرسکے۔ علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ سستی سے مراد یہ ہے کہ ایسی چیز کو بوجھل یا گراں سمجھنا جس کو گراں سمجھنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ۔‘‘اس لیے کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب نفس طاقت ہونے کے باوجود خیر کی طرف نہ جائے۔ والْهَرَمِ: …ایسی بڑی عمر جس میں انسان کے بعض اعضاء کام کرنے سے جواب دیدیں ۔ اسے ارذل (ناکارہ) عمر بھی کہا جاتاہے۔ اس لیے کہ اس عمرمیں انسانی زندگی سے مقصود عمل یا علم میں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوپاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : ﴿ لِكَيْلَا يَعْلَمَ مِن بَعْدِ عِلْمٍ شَيْئًا﴾ (النحل:۷۰) ’’ اس لیے کہ (بہت کچھ )جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے۔‘‘ وَسُوءِ الكِبَرِ: …’’برے تکبر ‘‘ سے مراد نعمت کے وقت سرکشی کرنا اور لوگوں پر اپنی بڑائی کا اظہار کرنا ہے۔ امام نسائی کی روایت کے مطابق وَسُوءِ الكِبَرِ کے بجائے ’’سوء العمر‘‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔ جس سے مراد وہ امور ہیں جو بڑھاپے کی وجہ سے لاحق ہوجاتے ہیں جیسے : عقل کا ختم ہوجانا، رائے میں اختلاط؛ اور ذہنی خرابی؛ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے کاموں میں کمی اور ان کے علاوہ دیگر امورجو کہ انسان کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ۔ ’’ لمعات‘‘ میں لکھا ہے کہ ان فقروں میں نیچے سے اوپر کی جانب ترتیب کے ساتھ ترقی ہوئی ہے۔ سب سے پہلے سستی سے پناہ مانگی گئی۔یعنی جب انسان استطاعت ہونے کے باوجود نیکی کے کاموں کو گراں سمجھے۔
Flag Counter