Maktaba Wahhabi

56 - 112
۱: قاضی ابو سعود اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں:’’اپنی آخرت کے لیے تقویٰ کا زادِ راہ لو ، کیونکہ وہ بہترین زادِ راہ ہے۔‘‘ [1] ۲: شیخ سعدی رقم طراز ہیں: حقیقی زادِ راہ ،جس کا نفع اپنے مالک کے لیے دنیا و آخرت میں جاری رہتا ہے ، وہ تقویٰ ہے، وہ ہی ہمیشہ ٹھہرنے والی جگہ (یعنی آخرت) کا زاد ہے ، اور وہ ہی کامل ترین لذت اور جلیل القدر دائمی نعمتوں تک پہنچانے والا ہے۔ جس شخص نے اس زاد کو چھوڑا، وہ ہی سفر خرچ سے محروم ، ہر شر کا نشانہ اور دار المتقین[جنت] میں جانے سے روکا گیا ہے۔ اور یہ بات تقویٰ کی اہمیت اُجاگر کرتی ہے۔[2] ۳: شیخ قاسمی نے قلم بند کیا ہے:’’اور یہ پہلے زاد سے اعلیٰ ہے ، کیونکہ زادِ دنیا نفس کی مراد اور شہوتوں تک پہنچاتا ہے اور زادِ آخرت اس کی نعمتوں تک پہنچاتا ہے ۔ اس بارے میں اعشی نے کہا: إِذَا أَنْتَ لَمْ تَرْحَلْ بِزَادٍ مِنَ التُّقَی ولَاقَیْتَ بَعْدَ الْمَوتِ مَنْ قَدْ تَزَوَّدَا نَدِمْتَ أَنْ لَا تَکُوْنَ کَمِثْلِہِ وَأَنَّکَ لَمْ تُرْصِدْ لِمَا کَانَ أَرْصَدا[3] [جب تو اس [ دنیا] سے زادِ تقویٰ کے بغیر روانہ ہوا اور موت کے بعد تیری ملاقات اس شخص سے ہوئی، جو یہ زاد لے کر آیا، تو تجھے اس بات پر ندامت ہو گی، کہ تو اس جیسا کیوں نہ ہوا اور تو نے وہ جمع کیوں نہ کیا، جو اس نے کیا۔] ایک اور شاعر نے کہا: اَلْمَوْتُ بَحْرٌ طَامِحٌ مَوْجُہُ تَذْھَبُ فِیْہِ حِیْلَۃُ سَابِحٍ یَا نَفْسُ إِنِّيْ قَائِلٌ فَاسْمَعِيْ مَقَالَۃً مِنْ مُشْفِق نَاصِحٍ
Flag Counter